Saturday 27 August 2016

Chunnri of Badin -feature Wasique Memon



                                                بدین کی چنری

             دور قدیم سے دور جدید تک یہ سندھ کی قدیم ثقافت ہے

                                       واثق احمد میمن   رول نمبر 70  ایم اے پریویس

سندھ میں خواتین کے پہناوے چنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھے جاتے ۔ اگر چہ ملک میں چنری سندھ کے چند ایک اضلاع میں تیار کی جاتی ہے مگر بدین کو چنری کا مرکز مانا جاتا ہے ۔ جنوبی ایشیا میں انڈیا چنری کی تیاری میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ چنری کو پڑوسی ملک کی تہذٰیب و ثقافت کا بھی ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح سندھ میں بھی چنری کی تاریخ کا آغاز کچھ بجھ ، کاٹھیاواڑ راجستھان اور سندھ کے موجودہ تھر  کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے ۔ اور قیام پاکستان کے بعد سندھ کے تھر کے  ان علاقوں سے کاریگروں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی  چنری کی تیاری کا کاروبارجاری رکھا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی ۔ 

بدین میں چنری کی تیاری میں کاریگروں نے بدلتے وقت کے تمام تقاضوں کو بھی مد نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چنری کے ڈیزائنوں اور رنگوں میں انفرادیت نے اسے شہری و دیہی علاقوں کے جدید فیشن میں یکسا ں مقبول کیا 
ہے ۔بلکہ بدین کی چنری دنیا بھر میں اس علاقے کی خصوصی پہچان بن گئی ہے ۔
چنری دراصل خواتین کا لباس ہے سندھ میں اکثر خواتین اسے شلوار قمیض کے طور پر استعام کرتی ہیں مگر قمیض کے ساتھ اسے گھاگرے یا شرارے کے طور پر بھی عام استعام کیا جاتا ہے یوں تو یہ لباس تمام قومیتوں کی خواتین میں مقبول ہے مگر اندرون سندھ اور باالخصوص تھر پارکر کی اقلیاتی خواتین چنری سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتی ہیں اور اسے زیب تن کرتے دکھائی دیتی ہیں چنری کی تیاری میں سب سے پہلے سفید 

لٹھے یا ململ کے کپڑے کا عام طور پر استعام کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو پہلے پیلے رنگ میں مکمل طور پر رنگا جا تا ہے
کاریگروں کے مطابق چنری میں جو رنگ استعمال کئے جاتے ہیں وہ عام نہیں بلکہ مقصوص قسم کے کیمیکل ہوتے ہیں جو مختلف ممالک سے درآمد کئے جاتے ہیں ان کیمیکل زدا رنگوں کو گرم اور ٹھنڈے پانی میں ملایا جاتا ہے تاہم چنری کے تیاری کے دوران زیادہ تر گرم پانی کا استعمال کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو پیلا کرنے کے بعد اس کو مخصوص کیمیکل زدہ رنگوں سے گل کاری کی جاتی ہے اور ڈیزائین کے مطابق لکڑی سے بنے ہوئے ٹھپوں کے ذریعے نقش و نگار چھاپنے کے بعد کپڑے کو جگا جگا سے کچے دھاگے سے گرہیں لگائی جاتی ہے جس کے بعد کپڑا سکڑ جاتا ہے اور اس کپڑے مخصوص طریقے سے لپیٹا جاتا ہے  اور پھر اس لپٹے جانے والے کپڑے کے آدھے حصے پر پلاسٹک باندھ دیا جاتا ہے اور آدھے کھلے ہوئے حصے کو مختلف رنگوں سے گزارا جاتا ہے اور اس کو خشک ہونے کے لیے لٹکا دیا جاتا ہے خشک ہونے بعد کچے دھاگے سے بندھی گرہیں کھولنے سے مختلف رنگ بھی بکھر تے جاتے ہیں اور اسی صورت میں اسے فروخت کرنے کے لئے مارکیٹ میں بھجوا دیا جاتا ہے ابتدائی طور پر چنری کے ایک سوٹ کا کپڑا ایک رومال کے برابر دکھائی دیتا ہے اس کی گرہیں کھول نے پر یہ کپڑا حیرت انگیز پر کھلتا چلا جاتا ہے ہہی وجہ ہے کہ اس کپڑے کو چنری کہا جاتا ہے کاریگروں کا کہنا ہے کہ وقت کی جدت اور فیشن کی جدید تقاضوں کے مطابق چنری کو ہر دل کش رنگوں کے امتزاج میں تیار کیا جاتا ہے جبکہ ماضی میں چنری صرف سفید سوتی کپڑے پر تیار کی جاتی تھی مگر اب چار جٹ اور شفون اور لون کے کپڑے پر بھی چنری تیار کی جاتی ہے اور رنگوں کے حسین انتزاج کے سبب چنری کے پہناوے کی مقبولیت بھی دن بدن بڑتی جارہی ہے

سندھ میں چنری کے دو پٹے کو اجر بعد سب سے بڑی تعظیم حاصل ہے اور اکثر سندھ میں مرد مہمانوں کو اجر خواتین کو چنری پیش کر نے کا عام رواج ہے چنری کا شمار سندھ و ھندھ کی قدیم ثقافت میں ہوتا ہے ۔ سندھ کی اس قدیم ثقافت کو بڑی کاروباری شکل دینے میں حکومت کی جانب سے چنری کی تیاری کرنے والے کاریگروں کی سرپرستی یا ان کی مالی معاونت نہ کرنے کی وجہ سے بدین میں لوگوں نے اپنے گھروں میں چنری کی تیاری کے چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں چنری کے چوڑے ہاتھ سے تیار کئے جاتے ہیں 
چنری کی تیاری کی صنعت سے وابستہ کاریگروں کو در پیش مالی مسائل  کےسبب چنری تیاری سے وابستہ کاریگروں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے چنری کی صنعت سے وابستہ کاریگر رب ڈنو کھٹی اور محمد حسین کھٹی کا کہنا ہے کہ چنری کی تیاری میں آنے والے آخراجات کے مقابلہ میں انہیں جو اجرت  ملتی ہے وہ ناکافی ہے اور تمام تر مہارت اور کاریگری کے باوجود چنری کا زیادہ طر منافہ دکانداروں کو ملتا ہے انہوں نے بتایا کہ انکے پاس وسائل نا ہونے کی وجہ سے وہ چنری کی تیاری کے لیے بڑی مقدار میں کپڑے کی خریداری اور رنگوں کی اور کیمیکل کی درآمد گی نہیں کر سکتے ان کی مالی مجبوری کا تمام تر فائدہ وہ تاجر اٹھا تے ہیں جو چنری کی تیاری میں کپڑا اور چنری کی تیاری میں استعمال ہونے والے  مخصوص رنگ  اور کیمیکل فراہم کرتے ہیں اور ہمیں صرف مضدوری ادا کی جاتی ہے جس سے ہماری ماشی ضروریات پوری نہیں ہوتی اور ہمارے گھروں کے آخراجات پورے نہیں ہوتے ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چنری کی تیاری کے لیے براہ راست ہمیں قرضوں کی فراہمی اور ملکی و بیرون ملک منڈیوں تک رسائی کی سہولیات فراہم کرے تو نہ صرف دنیا بھر میں چنری کے ذریعے ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے بلکہ چنری کی تیاری کو صنعت درجا بھی مل سکتا ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کو روزگار کی فراہمی بھی ممکن ہو سکتی ہے  

> واثق احمد میمن بدین

>    رول نمبر 70 
> ایم اے پریویس 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi