Saturday 27 August 2016

Chunnri of Badin -feature Wasique Memon



                                                بدین کی چنری

             دور قدیم سے دور جدید تک یہ سندھ کی قدیم ثقافت ہے

                                       واثق احمد میمن   رول نمبر 70  ایم اے پریویس

سندھ میں خواتین کے پہناوے چنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھے جاتے ۔ اگر چہ ملک میں چنری سندھ کے چند ایک اضلاع میں تیار کی جاتی ہے مگر بدین کو چنری کا مرکز مانا جاتا ہے ۔ جنوبی ایشیا میں انڈیا چنری کی تیاری میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ چنری کو پڑوسی ملک کی تہذٰیب و ثقافت کا بھی ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح سندھ میں بھی چنری کی تاریخ کا آغاز کچھ بجھ ، کاٹھیاواڑ راجستھان اور سندھ کے موجودہ تھر  کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے ۔ اور قیام پاکستان کے بعد سندھ کے تھر کے  ان علاقوں سے کاریگروں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی  چنری کی تیاری کا کاروبارجاری رکھا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی ۔ 

بدین میں چنری کی تیاری میں کاریگروں نے بدلتے وقت کے تمام تقاضوں کو بھی مد نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چنری کے ڈیزائنوں اور رنگوں میں انفرادیت نے اسے شہری و دیہی علاقوں کے جدید فیشن میں یکسا ں مقبول کیا 
ہے ۔بلکہ بدین کی چنری دنیا بھر میں اس علاقے کی خصوصی پہچان بن گئی ہے ۔
چنری دراصل خواتین کا لباس ہے سندھ میں اکثر خواتین اسے شلوار قمیض کے طور پر استعام کرتی ہیں مگر قمیض کے ساتھ اسے گھاگرے یا شرارے کے طور پر بھی عام استعام کیا جاتا ہے یوں تو یہ لباس تمام قومیتوں کی خواتین میں مقبول ہے مگر اندرون سندھ اور باالخصوص تھر پارکر کی اقلیاتی خواتین چنری سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتی ہیں اور اسے زیب تن کرتے دکھائی دیتی ہیں چنری کی تیاری میں سب سے پہلے سفید 

لٹھے یا ململ کے کپڑے کا عام طور پر استعام کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو پہلے پیلے رنگ میں مکمل طور پر رنگا جا تا ہے
کاریگروں کے مطابق چنری میں جو رنگ استعمال کئے جاتے ہیں وہ عام نہیں بلکہ مقصوص قسم کے کیمیکل ہوتے ہیں جو مختلف ممالک سے درآمد کئے جاتے ہیں ان کیمیکل زدا رنگوں کو گرم اور ٹھنڈے پانی میں ملایا جاتا ہے تاہم چنری کے تیاری کے دوران زیادہ تر گرم پانی کا استعمال کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو پیلا کرنے کے بعد اس کو مخصوص کیمیکل زدہ رنگوں سے گل کاری کی جاتی ہے اور ڈیزائین کے مطابق لکڑی سے بنے ہوئے ٹھپوں کے ذریعے نقش و نگار چھاپنے کے بعد کپڑے کو جگا جگا سے کچے دھاگے سے گرہیں لگائی جاتی ہے جس کے بعد کپڑا سکڑ جاتا ہے اور اس کپڑے مخصوص طریقے سے لپیٹا جاتا ہے  اور پھر اس لپٹے جانے والے کپڑے کے آدھے حصے پر پلاسٹک باندھ دیا جاتا ہے اور آدھے کھلے ہوئے حصے کو مختلف رنگوں سے گزارا جاتا ہے اور اس کو خشک ہونے کے لیے لٹکا دیا جاتا ہے خشک ہونے بعد کچے دھاگے سے بندھی گرہیں کھولنے سے مختلف رنگ بھی بکھر تے جاتے ہیں اور اسی صورت میں اسے فروخت کرنے کے لئے مارکیٹ میں بھجوا دیا جاتا ہے ابتدائی طور پر چنری کے ایک سوٹ کا کپڑا ایک رومال کے برابر دکھائی دیتا ہے اس کی گرہیں کھول نے پر یہ کپڑا حیرت انگیز پر کھلتا چلا جاتا ہے ہہی وجہ ہے کہ اس کپڑے کو چنری کہا جاتا ہے کاریگروں کا کہنا ہے کہ وقت کی جدت اور فیشن کی جدید تقاضوں کے مطابق چنری کو ہر دل کش رنگوں کے امتزاج میں تیار کیا جاتا ہے جبکہ ماضی میں چنری صرف سفید سوتی کپڑے پر تیار کی جاتی تھی مگر اب چار جٹ اور شفون اور لون کے کپڑے پر بھی چنری تیار کی جاتی ہے اور رنگوں کے حسین انتزاج کے سبب چنری کے پہناوے کی مقبولیت بھی دن بدن بڑتی جارہی ہے

سندھ میں چنری کے دو پٹے کو اجر بعد سب سے بڑی تعظیم حاصل ہے اور اکثر سندھ میں مرد مہمانوں کو اجر خواتین کو چنری پیش کر نے کا عام رواج ہے چنری کا شمار سندھ و ھندھ کی قدیم ثقافت میں ہوتا ہے ۔ سندھ کی اس قدیم ثقافت کو بڑی کاروباری شکل دینے میں حکومت کی جانب سے چنری کی تیاری کرنے والے کاریگروں کی سرپرستی یا ان کی مالی معاونت نہ کرنے کی وجہ سے بدین میں لوگوں نے اپنے گھروں میں چنری کی تیاری کے چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں چنری کے چوڑے ہاتھ سے تیار کئے جاتے ہیں 
چنری کی تیاری کی صنعت سے وابستہ کاریگروں کو در پیش مالی مسائل  کےسبب چنری تیاری سے وابستہ کاریگروں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے چنری کی صنعت سے وابستہ کاریگر رب ڈنو کھٹی اور محمد حسین کھٹی کا کہنا ہے کہ چنری کی تیاری میں آنے والے آخراجات کے مقابلہ میں انہیں جو اجرت  ملتی ہے وہ ناکافی ہے اور تمام تر مہارت اور کاریگری کے باوجود چنری کا زیادہ طر منافہ دکانداروں کو ملتا ہے انہوں نے بتایا کہ انکے پاس وسائل نا ہونے کی وجہ سے وہ چنری کی تیاری کے لیے بڑی مقدار میں کپڑے کی خریداری اور رنگوں کی اور کیمیکل کی درآمد گی نہیں کر سکتے ان کی مالی مجبوری کا تمام تر فائدہ وہ تاجر اٹھا تے ہیں جو چنری کی تیاری میں کپڑا اور چنری کی تیاری میں استعمال ہونے والے  مخصوص رنگ  اور کیمیکل فراہم کرتے ہیں اور ہمیں صرف مضدوری ادا کی جاتی ہے جس سے ہماری ماشی ضروریات پوری نہیں ہوتی اور ہمارے گھروں کے آخراجات پورے نہیں ہوتے ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چنری کی تیاری کے لیے براہ راست ہمیں قرضوں کی فراہمی اور ملکی و بیرون ملک منڈیوں تک رسائی کی سہولیات فراہم کرے تو نہ صرف دنیا بھر میں چنری کے ذریعے ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے بلکہ چنری کی تیاری کو صنعت درجا بھی مل سکتا ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کو روزگار کی فراہمی بھی ممکن ہو سکتی ہے  

> واثق احمد میمن بدین

>    رول نمبر 70 
> ایم اے پریویس 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi  

Monday 6 June 2016

پروفائل عاصمہ ذوالفقار Aasma Zulfiqar Profile

پروفائل عاصمہ ذوالفقار

 تحقیق و تحریر : مہناز صابر
Profile of Aasma Zulfiqar by Mehnaz Sabir
MMC/2K16/36 (Previous)

کسی ہجوم پر آپ کی نظر کسی ایک شخصیت پر ٹہر جائے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ایسا ناممکن بھی نہیں۔ میرے ساتھ ایسا تب ہوا جب میری نظر ایک اوسط قد کی لڑکی پر جا کر رک گئی۔ وہ مجھے کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ لال رنگ کے انارکلی سوٹ میں اپنے دوٹے کو سنبھالتے ہوئے وہ میری ہی جانب چلی آرہی تھی۔ میری اب خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میں اب انہیں پہچان چکی تھی۔ وہ عاصمہ ذوالفقار علی ہی تھی۔ سر سہیل سانگی کی چہیتی اسٹوڈنٹس میں سے ایک۔ 
اکثر سر سہیل سے ان کی ذہانت کے قصے سنتی رہتی تھی۔ اور یہ بھی جانتی تھی کہ کچھ عرصے تک وہ حیدرآباد میں ایکسپریس نیوز چینل پر بطور رپورٹر اور سب ایڈیٹر خوب نبھا چکی تھی۔ 

 میں نے اپنے آپ میں کچھ ہمت پیدا کی۔ اور ان سے جا کر ملاقات کی۔ پہلے مجھے یوں دیکھ کر کچھ حیران اور تھوڑی سی پریشان ہوئی،کہ آکر میں ان کو کیسے جانتی ہوں؟ پھر جب میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی آپ ہی کی طرح سر سہیل کی اسٹوڈنٹ ہوں، تو ان کے چہرے پر خوشگوار تاثرات نمودار ہو گئے۔ اور پھر ہم لوگ کافی دیر تک یونیورسٹی، جاب، اور کچھ سر سہیل کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران مجھے ان کے بارے میں کافی کچھ جاننے کا موقعہ ملا۔ 

 عاصمہ ذوالفقار علی آٹھ اگست 1985 میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے خاندان کا تعلق انڈیا کے شہر اجمیر شریف سے تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ سر سہیل انہیں پیار سے اجمیری کہہ کر بلاتے تھے۔

 عاصمہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی ہیں۔ ان سے بڑی ان کی تین بہنیں ان پر جان چھڑکتی ہیں۔ جبکہ امی ابو کا ان کے بنا دل ہی نہیں لگتا۔

 انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم شاہ لطیف اسکول سے شروع کی اور وہیں سے انٹر کیا۔
 اور پھر سندھ یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔ 

یونیورسٹی کے دور میں وہ نہ صرف اپنے گروپ میں ذہین سمجھی جاتی تھیں بلکہ پورے کلاس میں ان سے زیادہ ذہین کوئی اور اسٹوڈنٹ نہیں تھا۔ اس لئے وہ گھر کے علاوہ اپنے دوستوں اور تیچرز کی بھی فیوریٹ اسٹوڈنٹ تھیں۔ 

ان کی زندگی کا یادگار دن وہ تھا جب انہوں نے ماس کہمیونیکیشن میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل جیتا ۔ 


-------  -----------                     ---------------           --------  ----------

Too many composing mistakes. particularly of ے and  ی
This is one side view, how u observed her and how people know her, comments from her friends  colleagues  are must. 
 Intro is too traditional
photo is also required for interview, profile and feature

پروفائل عاصمہ ذوالفقار 

 تحقیق و تحریر : مہناز صابر

MMC/2K16/36 (Previous)

ہمارے ملک پاکستان مےں بہت با ہمت اور پڑھے لکھے لوگ موجود ہےں لےکن انکو آگے بڑھنے نہےں دےا جاتا کہ وہ کسی اچھی جوب پر فائز ہوکر ملک و قوم کی خدمت کر سکےں عاصمہ ذولفقار علی بھی اےک بہت قابل اور باہمت شخصےت کی مالک ہےں۔
عاصمہ ذوالفقار علی اجمےری سے مےری ملاقات اےک شادی مےں ہوئی مےں نے انھےں دےکھتے ہی پہچان لےا کہ ےہ تو اےکسپرےس نےوز کی نمائندہ ہےں مےں انسے جاکر ملی تو گفتگو کے دوران مجھے ےہ اندازہ ہوا کہ عاصمہ تو بہت اچھی شخصےت کی مالک ہےںاور بہت باہمت لڑکی ہےں مےں نے ان سے انکا اےڈرےس لےا اور پھر ان سے تفصےلی ملاقات کی ۔
عاصمہ ذالفقار علی اجمےری 8اگست 1985مےں حےدرآباد مےں پےدا ہوئےں انکے خاندان کا تعلق انڈےا اجمےر شرےف سے ہے قےام پاکستان کے وقت انکا خاندان انڈےا سے ہجرت کر کے پاکستان آےا ۔ ان کے والد جاب کے سلسلے مےں 30سال سعودی عرب مےں رہے عاصمہ کا کوئی بھائی نہےں ہے وہ صرف چار بہنےں ہےں اور عاصمہ سب سے چھوٹی ہےں انھوں سے ابتدائی تعلےم لطےف نےازی اسکول سے حاصل کی شاہ لطےف کالج سے انٹر کےا اور پھر سندھ ےونےورسٹی سے ماس کمےو نےکےشن ڈےپارٹمنٹ سے ماسٹرس کےا جب سے اےڈمےشن ہوا عاصمہ پوزےشن ہولڈر رہےں ۔ اسکول مےں بھی اور ےونےورسٹی مےں بھی ۔ جب انکا اےڈمےشن ماس کمےو نےکےشن ڈےپارٹمنٹ ہوا اسکے بارے مےں انہےں کچھ بھی پتا نہےںتھا انکو الف ب بھی نہےں آئی تھی نہ ہی خبروں مےں دلچسپی تھی انھےں اس مضمون مےں کوئی دلچسپی نہےں تھی لےکن اسکے باوجود پہلے سال ہی کلاس مےں پوزےشن آئی اور باقی کے تےن سال پورے ڈےپارٹمنٹ مےں پوزےشن لی اور مےڈل بھی حاصل کےا ۔
پوزےشن لےنے کی وجہ ےہ تھی کہ وہ صبح فجر مےں اٹھتی تھےں اور مسلسل پڑھتی تھےں اور رات 12بجے تک پڑھتی تھےں سارے مضامےن مےں 80مےں مارکس آئے تھے ۔
انھےں سہےلےاں بھی بہت اچھی ملےں ےونےورسٹی مےں انکی تےن سہےلےاں اور تےنوں بہت اچھی ہےں ۔
عاصمہ بہت زےادہ مددگار طبےعت کی مالک ہےں دوسروں کا درد اپنا درد سمجھتی ہےں ہر کسی کی مدد کرنے کےلئے تےار رہتی ہےںبہت مہمان نواز ہےں خاندان سے زےادہ دوستوں سے ملنا پسند ہے دوستوں کو زےادہ ترجےح دےتی ہےں۔ کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہےں اور کھانے مےں برےانی اور کباب شوق سے کھاتی ہےں ۔
شاعری، مصوری اور کتابےں پرھنے کا شوق ہے اور کرکٹ دےکھنے کی حد تک پسند ہے انکے والد تو 30سال سے بےرون ملک تھے لےکن ہےاں پر انکے ٹےچر سہےل سانگی نے والد کی طرح بہت ساتھ دےا ہر جگہ مدد کی جاب کے سلسلے مےں بھی گائےڈکےا جب بھی کہےں نئی جاب کی آفر ہوتی ہے تو وہ اپنے ٹےچر سہےل سنگی سے مشورہ کرتی ہےں اس فےلڈ مےں آگے آنے مےں انکے ٹےچر سہےل سانگی انکی بہن اور دوستوںکا بہت ہاتھ ہے ۔
اردو، انگلش اور سندھی تےنوں زبانوں پر عبور حاصل ہے اور تےنوں زبانوں مےں انھوں نے آرٹےکل لکھے ہےں مگر مخلتف مےگزےنوں، اخباروں اور رسالوں مےں ےونےورسٹی مےں شعور مےگزےن اور روشنی اخبار مےں انگرےزی بھی اےڈےٹر رہی ہےں۔
اے -آر-وائی نےوز چےنل اور اے -آر-وائی ڈےجےٹل پارٹنر شپ کی انفارمےشن ڈےپارٹمنٹ شہباز بلڈنگ مےںایک سال نےشنل پارٹنر شپ اردو اور انگلش دونوں زبانوں مےں نےوز بنائےں تھےں۔
گورنمنٹ جاب کےلئے بےشمار ٹےسٹ دےئے اور سارے ٹےسٹ پاس کئے لےکن انڑوےو پاس نہےں کر سکےں کےونکہ انٹروےو مےں سفارشی لوگ کامےاب ہوتے ہےں انھوں نے بہت زےادہ جدوجہد کی ہے کراچی مےں بہت زےادہ دکھے کھائے ہےں انڑن شپ اور جا ب ڈھونڈنے کےلئے ۔2013انفارمےشن ڈےپارٹمنٹ نے انٹروےو کی کال کی تھی اس مےں سے لاتعداد لوگوں مےں سے ٹاپ 5نے عاصمہ کا نام آےا آفر لےٹر بھی آگےا تھا مےڈےکل بھی بنوا لےا تھا لےکن پھر سفارشی بندہ آگےا اور جاب اسکو مل گئی ۔
ڈےفےنس منسٹری کی جاب آئی تھی ٹےسٹ دےنے والوں کی تعداد 250تھی ان مےں سے صرف 6پاس ہوئے ان مےں بھی عاصمہ کا نام تھا لےکن یہاں پر بھی انٹروےو کے دوران انھےں بہت ساری باتےں سنے کو ملیں کہ سندھ ےونےورسٹی سے پوزےشن لے ہے تو کوئی تےر نہےں مارا اور کہا کہ اپنی ڈگری کو فرےم کروا کر گھر کی دےوار پرلگالےں ےہ سب سن کر انھےں بہت دکھ ہوا کہ پڑھے لکھے لوگ کےسی باتےں کر رہے ہےں ےعنی کراچی والوں کی نظر مےں سندھ ےونےورسٹی کی کوئی اہمےت ہی نہےں ہے لےکن عاصمہ نے ہمت نہےں ہاری اور فی الحال عاصمہ اےکسپرےس نےوز مےں سب اےڈےٹر کی جاب کر رہی ہےں الےکڑونک اور پرنٹ مےڈےا دونوں مےں کام کرتی ہےں ٹی وی مےں رپورٹنگ بھی کی ہے پیکیجز بھی بنائے ہےں T-20رپورٹنگ کے سارے کام کئے ہےں ۔
چنری کس طرح بنتی ہے اس پر اےک ڈا کےونمنڑی فلم بھی بنائی عاصمہ نے اسٹےڈی کےلئے بہت محنت کی لےکن انھےں اپنی ہمت کا صلہ نہےں ملا لےکن اس باہمت لڑکی نے ہمت نہےں ہاری اور ابھی تک اپنے مقصد کو حاصل کر نے کےلئے جدوجہد کر رہی ہےں۔
عاصمہ کا خواب ہے کہ کوئی اچھی سی گورنمنٹ جاب مل جائے اگر جاب نہےں ملتی ہے تو پھر اسی فےلڈ مےں آگے جانا چاہےں گی ۔
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Thursday 2 June 2016

Attendance Semester: 1st 2016



Attendance Semester: 1st - 2016
 
Class: M A (Previous)
 
Course: All courses taught in the selected class.
 
Class Count: 141 (Aggregate for all courses.)
 
Student Name Percentage
2016/MA-MMCS/001 - Aakash - Junejo 0%
2016/MA-MMCS/002 - Abdul Ghaffar Wadho 82%
2016/MA-MMCS/003 - Abdul Razzaque Kumbhar 84%
2016/MA-MMCS/004 - Abdul Sattar Lakho 88%
2016/MA-MMCS/005 - Aftab Ahmed Chandio 27%
2016/MA-MMCS/006 - Aftab Gul Kaleri Baloch 47%
2016/MA-MMCS/007 - Ahsan Shakeel Qaimkhani 82%
2016/MA-MMCS/008 - Aijaz Ali Bhatti 96%
2016/MA-MMCS/009 - Aijaz Gul Lakhan 74%
2016/MA-MMCS/010 - Akash - Meghwar 67%
2016/MA-MMCS/011 - Ali Raza Soomro 38%
2016/MA-MMCS/012 - Ali Raza Rajper 87%
2016/MA-MMCS/013 - Aqsa Sharif Qureshi 62%
2016/MA-MMCS/014 - Ayaz Ahmed Nizamani 81%
2016/MA-MMCS/015 - Aziz Ahmed Mitho Sarwan 11%
2016/MA-MMCS/016 - Baby Fatima Rajput 39%
2016/MA-MMCS/017 - Balach - Rind 9%
2016/MA-MMCS/018 - Danish Niaz Laghari 35%
2016/MA-MMCS/019 - Dure Shahwar Mirza 72%
2016/MA-MMCS/020 - Faheem Ahmed Memon 99%
2016/MA-MMCS/021 - Fareena Aslam Khanzada 53%
2016/MA-MMCS/022 - Farhan Ahmed Dars 43%
2016/MA-MMCS/023 - Fariya Masroor Syed 58%
2016/MA-MMCS/024 - Ghansham Das Meghwar 0%
2016/MA-MMCS/025 - Ghulam Mahdi Shah Syed 82%
2016/MA-MMCS/026 - Hassan Abbas Ansari 38%
2016/MA-MMCS/027 - Hoor Ul Ain Pathan 49%
2016/MA-MMCS/028 - Imtiaz Ahmed Abbasi 94%
2016/MA-MMCS/030 - Jamal Abdul Nasir Dars 55%
2016/MA-MMCS/031 - Jamshed Ali Wighio 68%
2016/MA-MMCS/032 - Khuram Ali Rajar 2%
2016/MA-MMCS/033 - Maiza - Siddiqui 74%
2016/MA-MMCS/034 - Maria - Shaikh 50%
2016/MA-MMCS/035 - Mashal - Jamali 84%
2016/MA-MMCS/036 - Mehnaz - Qureshi 26%
2016/MA-MMCS/037 - Mirza Mohsin Baig Mughal 33%
2016/MA-MMCS/038 - Muddasir - Arain 26%
2016/MA-MMCS/039 - Muhammad Asadullah Yousufzai 50%
2016/MA-MMCS/040 - Muhammad Nabeel Shaikh 71%
2016/MA-MMCS/041 - Muhammad Shuaib Baloch 72%
2016/MA-MMCS/042 - Muhammad Umair Arain 72%
2016/MA-MMCS/043 - Munium Ali Yousufzai Pathan 28%
2016/MA-MMCS/044 - Narmeen - Yousufzai Pathan 61%
2016/MA-MMCS/045 - Neelkanth - Bansari 40%
2016/MA-MMCS/046 - Pir Abdul Wajid Chandio 23%
2016/MA-MMCS/047 - Preetum Kumar Valicha 84%
2016/MA-MMCS/048 - Rajjab Ali Samejo 0%
2016/MA-MMCS/049 - Rasheed Ahmed Nizamani 94%
2016/MA-MMCS/050 - Rehma - Talpur 76%
2016/MA-MMCS/051 - Sabir Hussain Leghari 71%
2016/MA-MMCS/052 - Saddam Hussain Lashari 96%
2016/MA-MMCS/053 - Saher Ali Jakhrani 72%
2016/MA-MMCS/055 - Sana - Shaikh 70%
2016/MA-MMCS/056 - Sana Shah Bukhari Syed 82%
2016/MA-MMCS/057 - Sania - Abbasi 0%
2016/MA-MMCS/058 - Sarwar Hussain Khaskheli 0%
2016/MA-MMCS/059 - Seema - Almani 0%
2016/MA-MMCS/060 - Shahrukh Ali Yousuf Zai Pathan 34%
2016/MA-MMCS/061 - Sumbul Nazeer Pathan 50%
2016/MA-MMCS/062 - Sunny - Bansari 46%
2016/MA-MMCS/063 - Tarique Ali Chandio 68%
2016/MA-MMCS/064 - Tazmeen Rehman Abbasi 63%
2016/MA-MMCS/065 - Toseef Aijaz Qaboolio 11%
2016/MA-MMCS/066 - Waleed - Panhwar 16%
2016/MA-MMCS/067 - Wali Muhammad Kourejo 6%
2016/MA-MMCS/068 - Waseem Ahmed Unar 89%
2016/MA-MMCS/069 - Waseem Sajjad Arain 6%
2016/MA-MMCS/070 - Wasique Ahmed Memon 74%
2016/MA-MMCS/071 - Shahrukh - Shaikh 60%

Thursday 19 May 2016

Assignment improver failure 2016

Assignment improver failure First Semester 2016
Hard copy
MA Previous
Roll 43  Sohail Ahmed   pieces 4,    Reports 4
2k12/20  Danial Jafar      pieces 4 ,  Reports 4
2k15/ 23 Junaid Khuhro  pieces 4,  Reports 3


2k13/65 M.Asad Abbasi    Pieces 2, Reports Nil
2k/11/ 92 Shahzad Akhtar  Pieces 3, Reports 3

Regular
Profiles received

1) Fariya  2) Sadam Lashari, 3) Imtiaz Abbasi, 4) Rehma Talpur, 5) Abdul Ghaffar, 6) Dur Shahwar,  7) Sana Shaikh, 8) Sattar Lakho,  9) Aakash Hameerani

Question papers
Regular
BS-II News Reporting Major, (Theory and Practice) First semester 2016  Marks 60 time 2 hours

Attempt four questions. Question No 1 is compulsory
1. What is news? Find elements of news in the following news item and how you will further develop this news;
 KARACHI: At least four sustained minor injuries in a clash between two student groups in the Dawood University of Engineering and Technology on Thursday, the Jamshed Quarters police said. The activists belonging to the Imamia Students Organisation and the Punjabi Students Association clashed on the varsity premises in which clubs and stones were used resulting in injuries to four students, the police added. The injured students were discharged from the Civil Hospital Karachi after first medical aid.

2. Writing is skill if so, how? Enumerate the steps of writing.
3.  Is there any importance of letter to the editor?  Suggest tips for writing a good letter to the editor   
4.  What are the essentials of reporting?  How a reporter gathers news
5. Do you think media is free in Pakistan? Which elements control the media?

-----------------------------------------------------------------
Improver failure
BS-II News Reporting News Reporting Major, (Theory and Practice)   First semester 2016   Marks 100 time 2 and half hours

Attempt Five questions. Question No 1 is compulsory

1. What is news? Find elements of news in the following news item and how you will further develop this news;
 KARACHI: At least four sustained minor injuries in a clash between two student groups in the Dawood University of Engineering and Technology on Thursday, the Jamshed Quarters police said. The activists belonging to the Imamia Students Organisation and the Punjabi Students Association clashed on the varsity premises in which clubs and stones were used resulting in injuries to four students, the police added. The injured students were discharged from the Civil Hospital after first medical aid.

2. Writing is skill if so, how? Enumerate the steps of writing.
3.  Is there any importance of letter to the editor?  Suggest tips for writing a good letter to the editor  
4.  What are the essentials of reporting?  How a reporter gathers news
5. Do you think media is free in Pakistan? Which elements control the media?

6. Journalism has set pattern of some principles, by following these principles they take professional approach. Can you elucidate these principles?

NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)

BS-III  1st Semester Regular 2016
Attempt any three questions            Total marks 30     Time: 1and half hours
Q: 1: Editorializing can manipulate the thinking, how? Elucidate elements of editorial emphasis 
Q: 2: What is legal procedure for publishing a newspaper?
Q: 3: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting
Q: 4: Are Sindhi, Urdu and English newspapers different from each other in contents, approach, layout, format and size? Give a comparative study

Regular
M.A Previous
NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)

1st Semester 2016
Attempt four questions            Total marks 50     Time: 2 hours
Question No 5 is compulsory
Q:1: What is legal procedure for publishing a newspaper?
Q: 2: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting 
Q: 4:  How Feature and Article are different from each other?
Q: 5: Write short note on following terms with examples:
a) Profile b) Editorial c) Dateline d) Credit line e) Column f) Logo


----------------
Improver/ failure
NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)
BS-III /MA (Previous) 1st Semester 2016
Attempt any three questions            Total marks 30     Time: 1and half hours
Q: 1: Editorializing can manipulate the thinking, how? Elucidate elements of editorial emphasis 
Q: 2: Write short note on following terms with examples:
a) Profile b) Editorial c) Dateline d) Credit line e) Logo
Q: 3: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting
Q: 4:  What is difference between paid and public service contents? Elaborate with examples. 
  

علی پور Alipur

it is short, 600 words are required
Fareeha Masroor 
FEATURE 
فاریحہ مسرور 
رول نمبر : 23
M.A (Previous)
: علی پور 
انسان کا فطری تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچن کی کچھ اچھی یادیں کچھ اچھی باتیںکچھ خوبیاں کچھ دکھ کچھ قہقہے کچھ آنسو کچھ خواب کچھ اسکول لائف کے دن اور اسکول میںپڑھے کچھ اسباق اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے اور بار بار ان میں یا ان جیسی چیزوں میں یا ان جیسی جگہوں میں اپنے بچپن کو تلاش کرنا ہے بچپن ہوا سبق باغ کی سیر میرے اندر کچھ نقوش چھوڑ گیا ہے کہ جب میں سیرو سیاحت کو جاتی ہوں اور کوئی باغ دیکھتی ہوں تو بچپن کاپڑھا ہوا باغ کی سیر یادآجاتا ہے اور اس بات سے اپنے باغ کو مشترک کرتی ہوں مگر ہر بار ہی ایسا ہوا کہ میرے بچپن کا باغ دنیا والے باغ سے اور میری ذہنی محفوظی صلاحیتیوں سے کچھ دیر بعد مشترک ہوجاتا ہے ۔لیکن کچھ دن پہلے میرے اور میرے گھر والے سیر کے لئے ماتلی گئے ،ماتلی شہر جو حیدرآباد سے آگے ہے ویسے تو ماتلی چھوٹا سا شہر ہے لیکن اس کی تاریخ 100سال سے زیادہ پرانی ہے ماتلی پہنچنے کے بعد میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ علی پور کی سیر کے لئے نکلی دوران سفر سب سے پہلے انصاری شگر مل آئی اور دوسرے ہی لمحے گنے کی خوشبو ناک کو چیرتی ہوئی دماغ کی جڑوں میں پہنچ گئی ارد گرد لہلہاتے کھیت دماغ پر اپنے اثرات چھوڑ رہی تھیں کہ ہر بدلتا منظر اک سے دوسرے کو اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں زیر کررہا تھا ماتلی سے 10کلو میٹر دو حیدرآباد چینل کے ساتھ ساتھ سیدھے ہاتھ پر مڑتے ہی درختوں کے دونوں اطراف کی قطاروں نے ہمارا ستقبال کیا علی پور کا نظارہ دیکھتے ہی میں اسکی خوبصورتی میں کھوگئی دراصل علی پور ایک جگہ ہے بے حد خوبصورت جگہ جہاں لوگوں کے صاف ستھرے گھر بنے ہیں علی پور گاﺅں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت اور دلکش باغ کا منظر بھی پیش کرتا ہے بڑی نہر کے متصل دو چھوٹی نہریں اور بڑی نہر کا کا پانی اوپر کو جاکر چھوٹی نہروں میں گرنا جھرنے کا دلکش نظارہ پیش کرتی ہیں اور پھر فروری کی میٹھی میٹھی درخت کی چھاﺅں والی دھوپ اللہ تعالیٰ کی فطرت نمائی کا منظر پیش کررہی ہو درختوں پر بیٹھے پرندے اس خوبصورت وادی کو مزید دلکش بنا رہے تھے وہاں انکی گونجتی اللہ کی حمد و ثناءکی آوازیں کانوں کو دل کو سکون دے رہی تھی۔
حد نظر کھیت آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہے تھے لہلہاتے کھیت گندم کی بالیاں کھیتوں کے گرد چرتی بھینسیں لکڑیوں اور دنبو کے رہوڑ ٹھنڈی ہوا چبھتی دھوپ پرندوں کی حمد و ثناءاور دعوت طعام کچھ ایسے نظارے پیش کررہے تھے جن کو کیمروں میں محفو ظ کیا مگر انکے بیان کے لئے زبان قاصر ہے۔

Practical work under supervision of Sir Sohail Sangi
Media and Communication Studies University of Sindh
 #SohailSangi, #FareehaMasroor, #Alipur,   

لطیف آباد کی لڑکیوں کا یونیورسٹی کی طرف بڑھتا ہوا رحجان Latifabad

Ye article tw nhe lagta. Ap dekhen k article k kia definition hoti hae
ARTICLE
"لطیف آباد کی لڑکیوں کا سندھ یونیورسٹی کی طرف بڑھتا ہوا رحجان"
Fariya Masroor
M.A Previous
Roll # 23 
آرٹیکل  : فاریہ مسرور ایم اے پریوئس فرسٹ سمسٹمر
سندھ یونیورسٹی جامشورو جو کسی تعریف کی محتاج درس گاہ نہیں اور سندھ کی ایک مشہور جامع ہے جس میں پورے سندھ کے طلباء، طلبات علم حاصل کر نے اپنے گھر وں سے گاﺅں سے قصبوں اور شہروں سے آتے ہیں سندھ کی یہ جامع درس گاہ ، درس گاہوں میں اعلیٰ درس گاہ یعنی درس گاہوں کی ماں کا حاصہ حیثیت رکھتی ہے ہر شہر سے آنے والے طلبات کو یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے ہی شہر کے کسی اعلیٰ درس گاہ میں پڑھنے آئے ہوں یہاں کے قابل تعریف لائق اساتذہ اور یہاں کی انتظامیہ یقینً تعریف اور خراج امتیاز کے لائق ہے کہ جنہوں نے دن رات محنت کر کے ایک ایسا ادارہ قائم کردیا ہے جسکی مثال کم و بیش ایشیاءمیں تو ملنے سے قاصر ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ یونیورسٹی اپنے محدود و سائل کو بروحے کار لاتے ہوئے اس حیثیت کی حامل درس گاہ ہوگئی ہے جس کا شمار صفحے اول کی درس گاہوں میں ہوتا ہے یوں تو ہر گاﺅں ہر شہر کی طلباءاور طلبات یہاں علم حاصل کر نے آتے ہیں مگر ان میں خاص طلبات کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سراسر ذیادتی ہوگی طلبات میں سب سے بڑی تعداد لطیف آباد کے 12 یونٹوں میں سے آنی والی طلبات کی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں اگر ان تمام وجوہات کو ہم سلسلہ وار تحریر کریں تو جامعہ سندھ یونیورسٹی کی افادیت اور اسکی انتظامیہ کے بہت سے پہلو سامنے آئیں گے اسکی ایک اہم وجہ یہاں کا علمی ماحول ہے جسکی وجہ سے طلبات جامعہ سندھ کا رخ کر رہی ہیں علم و نیر کے ساتھ ساتھ یہاں کے علمی ماحول میں ایک دوسرے سے علمی مدد ایک دوسرے کا احترام اور عزت قابل ذکر ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اساتذہ اور طالبات کی بہت عزت کر تے ہیں اسی وجہ سے کہ لطیف آباد میں رہنے والی لڑکیاں کسی قسم کا ڈریا شک دل میں لئے بغیر یونیورسٹی کارخ کرتی ہیں ۔ سندھ کی قدیم تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ سندھ میں عورت کو عزت کے اعتبار سے ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اسکی تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ لطیف آباد میں رہنے والی لڑکیاں اپنی تعلیم کے بعد اس ہنر کو استعمال بھی کرتی ہیں جاب کی صورت میں ان تمام ملی جلی وجہوں سے ہی آج یونیورسٹی میں بڑی تعداد لطیف آباد سے آنے والی لڑکیوں کی ہے ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi 
 #GirlsEducation, #Latifabad, #Hyderabad, #SohailSangi,#FareehaMasroor,

Sunday 3 April 2016

استاد ۽ اديب تيرٿ داس اميداڻي پروفائيل Teerathdas Umedani

 Compare contrast, reference of the specialty of area, to which he belongs, community,create some images, that will enrich ur profile 
Abdul Razaq Kumbhar
استاد ۽ اديب سائين تيرٿ داس اميداڻي
پروفائيل
عبدالرزاق ڪنڀر ، ايم ، اي پريوس رول نمبر، 03

سائين تيرٿ داس اميداڻي علم ۽ ادب سان چاھ رکندڙ شخصيت جو مالڪ آهي. هن نه صرف علم لاءِ پاڻ پتوڙيو آهي پر ان جي تمام گھڻي خدمت به ڪئي آهي. پاڻ تاريخ22 نومبر 1946ع ڌاري ڳوٺ نصير خان لغاري نزد چمبڙ ۾ ڌرتي ماتا جي  دامن ۾ جنم ورتو.  پرائمري تعليم  پنهنجي آبائي ڳوٺ گورنمنٽ اسڪول نصير خان لغاري مان حاصل ڪيائين، چوٿون ۽ پنجون ڪلاس اسلاميه مڊل اسڪول مسڻ وڏي ۾ پڙهيو، جتي عربي سبجيڪٽ وڏي شوق ۽ ذوق سان پڙهيائون. مئٽرڪ سال 1963 ع ۾ سنڌ ماڊل هاءِ اسڪول ٽنڊو الهيار مان پاس ڪيائون، بي، اي 1968ع۽ ايم، اي 1971ع ۾ سنڌ يونيورسٽي مان پاس ڪيائين . پروفيشنل ڪوالفڪيشن جي حوالي سان بي ايڊ ۽ ايم ايڊ اولڊ ڪئمپس حيدرآباد مان  پاس ڪيائون..

سروس لاءِ ٻئي ڪنهن محڪمي کي پسند ڪرڻ بجاءِ تعليم کي ئي پسند ڪيائون، ڇو ته هي  مهان پيشو آهي جنهن سان نه رڳو انسان کي ڄاڻ ملي ٿي پر مان سمان، عزت ۽ آبرو پڻ وڌي ٿي. تاريخ 1964_ 5_12 ع تي گورنمنٽ مڊل اسڪول مبارڪ جروار ۾ انگلش ٽيچر طور ڀرتي ٿيا. ۽ پوءِ ٽنڊو الهيار جي مختلف اسڪولن ۾ پنهنجي علم جا جوهر ڏيکاريندا رهيا، جن ۾ گورنمنٽ مڊل اسڪول پاڪ سنگھار، گورنمنٽ هائير سيڪينڊري اسڪول چمبڙ، هاءِ اسڪول تاج پور،مڊل اسڪول پيارو لنڊ، هاءِ اسڪول سنجر چانگ،  هاءِ اسڪول خير محمد جروار،پاڻ هڪ نان مسلم ٽيچر ٿي ڪري عربي سبجيڪٽ ۾ تمام گھڻي دلچسپي رکندا هئا، سندن قوک مطابق پندرهن سال عربي جو سبجيڪٽ پڙهايائون. ان کان علاوه پاڻ سپر وائيزر به رهيا آهن. آخر ۾ گورنمنٽ هائير سيڪينڊري اسڪول چمبڙ مان  پرنسپل جي عهدي تان رضاڪارانه طور رٽائرمنٽ ورتائين.

سائين تيرٿ داس اميداڻي ماسٽر ٽرينر۽ ٽيوٽر طور به ڪافي خدمتون سرانجام ڏنيون آهن. ادبي ميدان ۾ 1971ع ۾ پير پاتائين، پاڻ نه صرف ڪهاڻيڪار آهن پر تحقيق ۽ تاريخ ۾ به سٺي ڄاڻ رکن ٿا. ادبي خدمتن جي حوالي سان سندن مذهبي ڪاوشون ڪافي آهن، جن ۾، “رنگ مالا ” نالي هڪ ڪتاب لکيو هيائون جيڪو سندر شيوا منڊلي ڪوٽڙي وارن جي طرفان 1972ع ۾ ڇپيو هو. سندن جيڪي ڪتاب شايع ٿي چڪا آهن انهن ۾ شڀ تهوار، گيان پرڪاش، ايشور اپاسنا، آتم درشن، ديوالي پوجن۽ شري ڀڳوان جا 108 نالا، ويد اپديش، سورنهن سنسڪار، ۽آنند ساگر آهن.

ان کان علاوه هندي ٻولي مان به ڪافي ڪتاب سنڌي ٻولي ۾ ترجمو ڪيا آهن جن ۾ شري راما پير، گرڙ پراڻ،  سانوڻ مهاتم، گرو گورک اپديش وغيره شامل آهن. ڪهاڻين جي ڪتابن ۾ ڪوئل جي پڪار، ديوانو دوست،  جي ڪٺيون تڪبير، صندوق ۾ سمنڊ ۽ دل جي دري مان پکي جو پرواز شامل آهن. سائين تيرٿ داس اميداڻي جا وقتن فوقتن مختلف اخبارن ۾ ڪالم، مضمون، تحقيقي مقاله ۽ڪهاڻيون پڻ شايع ٿين ٿيون. پاڻ هڪ سٺا مترجم به آهن آفريڪن ناول “ ٿنگس فال اپارٽ ” سنڌي ۾ ترجمو ڪيو اٿن، هن وقت سائين تيرٿ داس  رگ ويد جو هندي مان سنڌي ۾ ترجمو ڪري رهيا آهن .ميگهواڙن جي تاريخ تي هڪ تمام بهترين ڪتاب “ ميگھ ونس اتهاس” لکي پنهنجي برادري جي مٿان عظيم احسان ڪيو اٿن،  

سائين تيرٿ داس اميداڻي کي پنهنجي ڪيل خدمتن عيوض مختلف ادارن کان ايوارڊ پڻ مليا آهن جن ۾ روحل ادبي اڪيڊمي طرفان ميگھ ونس اتهاس ڪتاب تي مڃتا ايوارڊ ڏنو ويو. ڊويزنل ايجوڪيشن ٽنڊو الهيار طرفان بيسٽ پرفارمنس ايوارڊ ڏنو ويو،  بيسٽ ٽيچر ايوارڊ، کاو علاوه ٽا ئون ڪاميٽي چمبڙ طرفان به کين مختلف ايوارڊن سان نوازيو ويو.
         سندن علمي خدمتن جو باب تاريخ ۾ هميشه زنده رهندو، ڇو ته اهڙا محنتي ۽ فرض شناس استاد تمام گھٽ ملندا آهن

Profile of Teerath Das Umedani byAbdul Razaq Kumbhar, MA previous, 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media and Communication Studies, University of Sindh.

#Profile,  #TeerathDasUmedani,  #Abdul RazaqKumbhar,

Friday 1 April 2016

حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو Hyderabad

 حیدرآباد  میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو
 shahrukh
شاہ رخ 

پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں ۔
جہاں ہرروز تین لاکھ کلوسے زیادہ کچراپھیکا جاتاہے۔

شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔

 حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔

 شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔

حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کیلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔

 حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں۔

دوسری طرف ایڈمنسٹریٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹریاں،فائلوں میں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں شہر میں صفائی ستھرائی کانظام ناپیدہوکر رہ گیا ہے حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس ۔غیرقانونی ترقیوں اوردیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
shahrukh
M.A(previous)
Roll no #2k16MMC-71 
Under supervision of Sir Sohail Sangi
 #Hyderabad, #shahrukh

ٿر جو اُڀرندڙ ڳائڪ عباس فقير

Profile of Singer Abbas Faqeer 
Akash Hameerani 
ٿر جو اُڀرندڙ ڳائڪ عباس فقير
آڪاش هميراڻي
انسان دنيا جي گولي تي رهندڙ واحد باشعور ۽ باعقل سڏرائيندڙهستي آهي، انسان جيڪو آدجگاد کان وٺي هيستائين جيڪو ڪُجهه ڪندو پيو اچي اهو پنهنجي اندر ۾ ستل شعور کي راحت بخشڻ لاءِ ڪيو آهي، پوءِ اُهو اظهار ناول، شاعري، مصوري، رقص ذريعي ڪري يا موسيقي وسيلي ڪري اهو ماڻهو تي منحصر آهي.
موسيقي ماڻهو جي روح جي غذا آهي، جنهن سان هو اندر ۾ موجود انساني ڳڻن کي وڌيڪ صحتمند بڻائيندي آهي ۽ لاشعوري جي بُک کي پري ڀڄائيندي آهي، موسيقي ڪائنات سان گفتگو ڪرڻ جو پُڻ ناٰءُ آهي. موسيقي ذريعي فطرت کي خوبصورت بڻائي سگهجي ٿو ۽ فطرت جي حسين رنگن کي پسي سگهجي ٿو. اِها موسيقي ئي هئي جنهن وسيلي ٻيجل جنگل ۾ منگل ڪندو هو ۽ سُرندي جي مڌر سُر ۽ ساز سان جانورن کي ميڙي مُٺ ڪندو هو، ۽ ساڳي سرندي جي صدا راءِ ڏياچ کي سِر گهورڻ تي پُڻ مجبور ڪيو.
  موسيقار حسين ۽ حساس دلين جي ترجماني ڪندڙ هوندو آهي، هڪڙو ڪلاڪار پنهنجي فن جي ڪمال سان پٿر دل ماڻهو جي سخت مزاج کي مڌر بڻائي جهومائي سگهي ٿو. ڪلاڪار سماج جو اهم ۽ روح جي ترجماني ڪندڙ فرد آهن.
سنڌ جي حسين ۽ سون ورني سرزمين پُڻ موسيقي جي ميدان ۾ هميشه جيان اڳين صفن ۾ بيٺل آهي، سنڌ جي انهن انيڪ ڪلاڪارن موسيقي جي دنيا ۾ پنهنجو پاڻ ملهايو آهي. انهي موسيقي جي جهان جو اڀرندڙ ستارو، عباس فقير پُڻ آهي. عباس فقير جو جنم ٿر جي مشهور فنڪار حسين فقير جي گهر ۾ 13  مارچ 1994 تي ٿر جي شهر مٺي ۾ ٿيو. عباس فقير پرائمري تعليم گورنمينٽ پرائمري اسڪول ڪنڀار ڪالوني مان حاصل ڪيائين، مڊل جي تعليم گورنمينٽ هاءَ اسڪول نارٿ ڪالوني مٺي مان ڪيائين، گورنمينٽ ڊگري ڪاليج مٺي مان انٽر پاس ڪيائين، هن وقت گورنمينٽ ڊگري ڪاليج مٺي مان بي.ايس.سي ڪري رهيو آهي.
عباس فقير جو خاندان موسيقي سان واڳيل هئڻ ڪري ڳائڻ جو شوق ننڍپُڻ کان ئي ورائي ويو، شروعاتي تعليم دوران اسڪول ۾ منعقد ٿيندڙ نصابي توڙي غير نصابي پروگرامن ۾ ڳائڻ جو پُڻ موقعو ملندو هو. مئٽرڪ پاس ڪرڻ کان پوءَ ترت ئي شام جي وقت مراد فقير ميموريل سنگيت سکيا مرڪز جا ڪلاس وٺندو رهيو. مراد فقير سنگيت سکيا دوران کيس ٿر جي مشهور نوجوان راڳي رجب فقير جي استادي ۾  راڳ جي مختلف قسمن جي مهارت حاصل ڪيائين. ٿر ۾ مختلف سماجي، سياسي، قومپرست ۽ ادبي تنظيمون پنهنجي پروگرام جي شروعات عباس فقير جي سُر ۾ شاه جي وائي کان ڪرائينديون آهن، ته پنڊال ۾ ويٺل ماڻهوءَ سُر جي سحر ۾ وڪوڙجي ويندا آهن.



عباس فقير سنڌ جي ڪيترن ئي شاعرن جي شاعري ڳائيندو آهي، جن ۾ سنڌ جي سرتاج شاعر شاه لطيف، اُستاد بخاري، شيخ اياز، ادل سومرو، اياز گل، تنوير عباسي، حليم باغي، سائينداد ساند توڙي ايوب کوسو شامل آهن.
عباس فقير سادگي پسند نوجوان ڳائڪ آهي، اهو ئي سبب آهي جو نوجوان ۾ وڌيڪ مقبول آهي، ڀيڄ ڀني کان پوءَ مٺي شهر جي خوبصورت پڪنڪ پوائنٽ گڍي ڀٽ تي جڏهن نوجوان جا ٽولا موسم جي مزو وٺڻ لاءَ پنڌ ڪن ٿا تڏهن عباس فقير کي فون ڪري ضرور گهرائن ٿا. نوجوانن جي نگاهن جو مرڪز عباس فقير جڏهن سُر سارنگ جي وائي “دردوندي جو ديس وسي پيو، بوند برهه جي بهار لڳي” جهونگاريندو آهي تڏهن نوجوانن جي دلين جي ڌڙڪن، ڏڪاريل ڏيهه جي مارو ماڻهن سان محبت جو اظهار ڪندي آهي.
عباس فقير، بنا سازن جي جڏهن هم ڪلاس، هم عمر ۽ هم اثر دوستن جي اصرار تي شيخ اياز جو هي غزل “جا خدا کان نه ٿي، جا نه امڪان ۾. ڪالهه کان ڳالهه آهي سا انسان ۾” ڳائيندو آهي ته نوجون انقلابي جذبي سان سرشار ٿي ويندا آهن صحرا ۾ ماٺار پئجي ويندي آهي.
ٿري لوڪ گيت پُڻ عباس جي موسيقي حصو رهيا آهن، شادين مرادين ۾ هو جڏهن به ڳائڻ ويندو آهي ته لوڪ ادب سان چاهه رکندڙ ماڻهو کيس لوڪ گيت ڳائڻ جو چوندا آهن عباس فقير جو پسنديده لوڪ گيت “پايل موري باجي” آهي، عباس اهو گيت هر وقت جهونگاريندو رهندو آهي.
ننڍي عمر ۾ ئي هن ڪلاڪار حسين فقير لائيف ٽائيم اچيومينٽ ايوارڊ ۽ صادق فقير ايوارڊ پُڻ حاصل ڪيا آهن. ڏات جي ڏيهه جي هن اُڀرندڙ ڳائڪ کي اياز جي هنن سٽن سان سُر جي رنگن جي پارت ٿا ڪيون ته،

اها چنگ چارڻ اُمانت اٿئي
متان سر سوا ڪرين ڪي صدائون
 #Thar, #Profile, #AbbasFaqeer,#AkashHameerani
This work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi  in April 2016.

Monday 28 March 2016

Shaista Parveen Profile by Sana Shaikh

Shaista Parveen  Profile by Sana Shaikh
ثناء شیخ 
رول نمبر55 
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن 
ایم۔اے پریویس 
پروفائل
شائستہ پروین
شائستہ پروین ایک سماجی کارکن اور کامیاب بزنس ویمن کے نام سے جانی جاتی ہیں،آپ ۰۷۹۱ءکو گھوٹکی میں پیدا ہوئی،ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، ابھی دس جماعت مکمل ہی کی تھیں کہ آپ کی بہت چھوٹی عمرمیں شادی کرادی گئی آپ کے والد مجیب علی جو خود ایک استاد رہہ چکے تھے ،انہوں نے آپ کے لئے شریک حیات بھی ایک استاد ہی کو منتخب کیا ،شادی کے کچھ عرصے بعد ہی آپ اپنے شوہر کے ہمراہ سکھرمنتقل ہوگئیں اور اپنی ازدواجی زندگی سکھرمیں گذارنے لگیں،آپ کی دوبیٹیاں ہیں،جن میں سے بڑی بیٹی ڈاکٹری کے شعبہ سے منسلک ہے ،جب
کہ چھوٹی بیٹی فیشن ڈیزائنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے اوربزنس کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں گامزن ہے ۔
شائستہ پروین کے خاوند غفار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا،جو کے ایک پرائیویٹ اسکول میں شعبہ اسلامیات کے ٹیچر تھے ،کچھ وقت ہی گزراتھا کہ آپ کے خاوند روڈایکسیڈینٹ میں دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔آپ نے اپنی زندگی میں ایسا قیامت خیز وقت بھی دیکھا جب دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی اورنہ ہی پہننے کو اچھے کپڑے تھے،اتنے مشکل حالات میں بھی آپ نے بہت دلیری اورہمت سے کام لیااور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خودمحنت کرکے حلال کمائی کو ترجیح دی، انسان چاہے زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو،مگر ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ہنر ضرورہوتا ہے اورایسا ہی ایک ہنر آپ کو وراثت میں ملا،سلائی کڑھائی ہو یا کشیدہ کاری ،سادی کڑھائی کو یا موتی کڑھائی ہر طرح کی ڈیزائننگ میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔
شروعات میں آپ نے گھر گھر جاکر کڑھائی سلائی کے آرڈر لینا شروع کئے پھر آہستہ آہستہ آرڈرگھروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ بڑے بڑے دکانداراورفیکٹریوں سے بھی آپ کو کام ملنے لگا،مسلسل محنت اور لگن سے آپ نے”Hand Embroid“کے نام سے خودایک اکیڈمی شروع کی جہاں ہزاروں کی تعدادمیں گھریلو عورتیں ،لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کاکام سکھایا جاتا تھا۔
بطورسماجی کارکن بھی آ پ نے ہزاروں عورتوں کے مسائل کو نہ صرف حل کیا بلکہ ایساپلیٹ فارم بھی مہیا کیا جہاں وہ ایک خودمختارعورت بن کر ابھرسکیں اسی عزم کے ساتھ آپ نے ”پہچان اپنا ہنر “ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصدصرف عورتوں کو خود مختار بنانا ہی نہیں بلکہ ان عورتوںکے ہنر کو پہچان دلوانا تھا،ہنرمختلف پکوان میں مہارت کا ہو یا سوئیٹر بُننے کا ہو ہر چھوٹے بڑے کام کو فوقیت دی گئی۔اس مہم نے ہزاروں عورتوں کو روزگارمہیا کیا،جو گھربیٹھے باخوبی اپنے کام کو سرانجام دے رہی ہیں۔آپ نے مہم نہ صرف سکھر بلکہ اپنے آبائی شہر گھوٹکی میں بھی شروع کی اور وہاں بھی عورتوں کو وسائل فراہم کئے تاکہ ہر عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکیں،مختلف اقسام کی کڑھائی میں آپ کو مہارت حاصل تھی ہی لیکن ماڈرن زمانے کے فیشن اور ڈیزائننگ سے باخبر رہنے کے لئے آپ نے کراچی جاکر مختلف کورسس بھی کئے اور آج اپنی چھوٹی بیٹی کے ہمراہ ایک کامیاب بزنس ویمن کے طورپر اپنا بوتیک چلارہی ہیں۔
شائستہ پروین اردوزبان میں”زندگی اورتلخ لمحات“ کے نام سے کتاب بھی لکھ رہی ہیںجس میں کچھ لمحون کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان خود کو بہت حقیت سمجھتا ہے،خاص کر ایک گھریلو عورت جسے اللہ نے خدادات صلاحیتوں سے نوازا ہے،اگرہر عورت اپنی اہمیت کو سمجھ لے تو اسے آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
شائستہ پروین ایک خوش مزاج خاتون ہیں،جو عورتوں کے ہر چھوٹے بڑے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مہارت رکھتی ہیں آپ کو صرف عورتوں میں ہی مقبولیت حاصل نہیں بلکہ بڑے بڑے کاروباری آدمی بھی آپ کے ہنر اور کامیابی کی داددیتے ہیں۔آپ نے عورتوں کے ہر مقام میں اپنا رول باخوبی نبھایا ہے اور نبھارہی ہیں اگر آپ کوایک آئیڈیل خاتون کا نام دیا جائے توغلط نہ ہوگا۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

#Profile, #ShaistaParveen, #SohailSangi,  #Sana Shaikh 

معزور هوندي حوصلا پهاڙ جيڏا بلند Shafqat Ali Shah

Please writer proper file name
 Profile -Mahadi Shah
if it is revised : Profile -Mahadi Shah -Revised
Also write ur name in Sindhi in the writing piece and category of writing i.e Interview, article, feature etc this should also be written in the writing piece. 
 Next time without proper file name  it will be rejected. Ur profile has been uploaded
Profile by: Ghulam Mahdi Shah 
Roll No: 25 (M.A Previous) 
معزور هوندي حوصلا پهاڙ جيڏا بلند
 شفقت علي شاهه  جو پروفائيل

مهدي شاهه
معزوري کي ڪمزوري نه سمجھندڙ سيد شفقت علي شاهه ڳوٺ سيد پناهه شاهه ضلعو ٽنڊو الهيار جو رهواسي آهي.
آءُ ڄائي ڄم کان معزور نه هئس هي بيماري مونکي 5 سالن جي عمر ۾ ٿي.
سيد شفقت علي شاهه
ان بيماري کان پوءِ اسان سنڌ جو ڪو ڊاڪٽر نه ڇڏيو جنهن ۾ ٽنڊو آدم، حيدرآباد، ڪراچي، نواب شاهه جا مشهور ڊاڪٽر شامل
آهن.
زندگي جو هي ڪڙو سچ ڪڏهن به ويساري نه سگھندس پر مجبوري خاطر هن سچ کي تسليم ڪرڻو پيو آهسته آهسته جئين زندگي گذرندي رهي تئين ضرورتون به وڌنديون رهيون پنهنجي دوستن سان ملڻ جلڻ لاءِ هڪ سائيڪل جي ضرورت پئي جڏهن ان سائيڪل جي ضرورت پوري ٿي ۽ دوستن ڏانهن وڃڻ لڳس ٽائيم ڪيئن گذرندو هو ڪا خبر ڪانه پئي.
پنهنجي بيماري واري صدمي کي رفته رفته ويسارڻ جي ڪوشش ڪئي پر هن دنيا جا پٿر دل ماڻهو ويسارڻ نه پيا ڏين جڏهن به ڪو تعانو ڏيندا هئا ته پراڻا سور به جاڳي پوندا هئا پر رب جي رضا سمجھي دل کي تسلي ڏيندو هئس.
اڪثر بابا جا دوست ايندا هئا ۽ اهي ڪچهري ۾ ڳالهيون ڪندا هئا ته ايران ۾ مولا علي رضا عليه اسلام جي روضي تي وڏا معجزا ٿيندا آهن جڏهن مون اهيا ڳالهه ٻڌي ته دل ۾ خيال ڪيم ته ڇو نه آءُ به مولا علي رضا عليه اسلام جي زيارت جو شرف حاصل ڪيان من رب راضي ٿي پئي ۽ هن معزوري مان هميشه جي لاءِ نجات ملي وڃي اهو خيال ڪري صبح جو اٿي بابا کي عرض ڪيم ته مونکي پاسپورٽ ٺهرائي ڏيو ته جيئن آءُ به مولا علي رضا عليه اسلام جي قبر جي زيارت ڪيان بابا پڇيو ته پٽ اهو اوچتو خيال ڪيئن آيو؟ ڪا خاص وجه ها بابا وجا اها آهي ته آءُ معزور آهيان ۽ هتي ڪافي ڊاڪٽرن کي ڏيکاري چڪا آهيون پر ڪو به فرق نه پيو آهي هاڻ دل ٿي چوي مولا رضا جي زيارت ڪري اتي پروردگار کي ٻاجھايان من ڪا دعا آگھامي پوي بابا شفقت مان ڀاڪر پائي چمي ڏئي چيائين ته سڀاڻي ئي حيدرآباد هلي پاسپورٽ ٺهرايون ٿا بابا جو اهو جواب ٻڌي دل ڏاڍي خوش ٿي رات جو سمهان پيو ته خوشي مان ننڊ ئي نه پئي اچي هڪ هڪ پل ڪلاڪ جيان پوري ڪري رات جي اونداهي سج جي چمڪندڙ روشني ۾ مٽجڻ لڳي جيئن صبح ٿي تيار ٿي جيئن حيدرآباد لاءِ روانه ٿيا سين سڌو پاسپورٽ آفيس پهچي پهرين فرست ۾ ارجنٽ پاسپورٽ ٺهرايوسين ڪجھ ڏينهن کان پوءِ پاسپورٽ ملي ويو ۽ جلدي ۾ ويزا لڳرائي آءُ پنهنجي پوري فيملي سان گڏ ايران ڏانهن روانه ٿياسين.
ايران پهچي هوٽل ورتي سين سفر جي ٿڪاوٽ ڀڄي سين صبح جو مولا علي رضا عليه اسلام جي زيارت ڪرڻ لاءِ مشهد ڏانهن روانه ٿياسين جيئن مشهد ۾ داخل ٿياسين ته هزارين نه پر لکين ماڻهو اتي زيارت لاءِ مولا علي رضا عليه اسلام جي صحن ۾ موجود هئا آءُ حيران ۽ پريشان ٿي ويس ته آءُ ته اڳي ئي معزور بي بس ۽ لاچار آهيان هتي جيڪي ماڻهو موجود هئا اهي ئي پريشان اسان ڪيئن زيارت ڪنداسين.
پر شايد اتي پهچڻ سائين منهنجون دعائون قبول ٿيڻ لڳيون دل ۾ اهو ئي خيال آيو پي ته شايد اڄ منهنجي زيارت ڪانه ٿيندي جيئن توڪل بر خدا صحن ۾ اندر داخل ٿياسين ته مونکي ۽ منهنجي بابا کي ويل چيئر تي خادم حرمين بابا کي هٽائي پاڻ ويل چيئر هلائي باقائدا پروٽوڪول سان مونکي زيارت ڪرائي.
جڏهن زيارت ڪري ٻاهر نڪتاسين ته باب الحوائج دروازي ڏانهن وڃڻ لڳاسين جيڏي محل باب الحوائج دروازي ڏانهن پهتاسين ته اتي ته منظر ئي عجيب هو اتي سون جي تعداد ۾ مريض شفا خاطر آيل هئا. ڪي اکين کان نابين هئا ته ڪي وري ڪنن کان ٻوڙا ته ڪي وري مون وانگر معزور الله جي زات تي يقين رکي باب الحوائج دروازي تي وڃي ويٺاسين حسب دستور هنن جي رسم آهي ته هڪ زنجير جو پاسو باب الحوائج دروازي ۾ ته ٻيو پاسو مريض کي ٻڌو ويندو هو.
اسان مغرب جي نماز کان پهرين آيل هئاسين اسان کي اتي فجر جي نماز جو ٽائيم پئيجي ويو هو جيئن ئي فجر جي نماز ختم ٿي ته هڪ نور جي شئا نڪتي اها اڏامندي ان مريض کي لڳي جيڪو اکين کان نابين هيو اهو منظر ڏسي لکين ماڻهن جي زبان تي صلوات جو ورد هيو.
اهو معجزو ڏسي مونکي ايڏي خوشي ٿي ڄڻ منهنجون سڀ دعائون قبول ٿي ويون. ان سان گڏ ايران جي اطراف جون زيارتون ڪري پنهنجي وطن ڏانهن واپس روانه ٿياسون.
ڪجھ ٽائيم کان پوءِ منهنجي گھر جي ٽي، وي خراب ٿي پئي آءُ ٿورو گھڻو هن ڪم مان ڄاڻيندو هئس پر ڪڏهن ڪا ٽي، وي کولي ٺاهي ڪانه دل ۾ خيال ڪيم ته خراب ته هو ئي ٿي پئي آهي ٺهي ته ٺيڪ آ نه ته هو ئي خراب آ!! 
بسم لله ڪري ٽي، وي کولي جيڪا به ان ۾ خرابي هئي هئا ٺيڪ ڪري جڏهن چالو ڪيم ته ٽي،وي هلي وئي ڪنهن انسان کي گر ڪنهن به ڪم ۾ ڪاميابي ملندي آهي ته ان جي ان ڪم ۾ دلچسپي وڌي ويندي آهي ائين آهسته آهسته ٽي،وي ريڊيو ۽ ٻيون ڪيتريون ئي اليڪٽرانڪ شيون پڻ ٺاهيون الله جي فضل ڪرم سان ڪٿي به مايوسي جو منهن ڏسڻو نه پيو.
هيئر آءُ رڪشا ڊرائيور به آهيان جڏهن مون رڪشا ورتو ته ماڻهن مونکي تعنا ڏنا هاڻ هي جڏو به رڪشا هلائيندو؟ رڪشا هلائڻ لاءِ ڄگھين جو هجڻ لازمي آهي ڪجھ ماڻهو به پنهنجي جڳهه تي صحيح هيا. پر اهو تعنو مونکا برداشت نه ٿيو دل ۾ وچن ڪيم ته آءُ ناممڪن کي ممڪن بڻائي ڏيکاريندس چوندا آهن ته حمت بندا مدد خدا.
بس آءُ پنهنجي ڳوٺ جي هڪ ڊرائيور سان گڏجي هڪ ويلڊر وٽ وياسين اتي اسان هڪ لوهه  جو پائيپ ورتو سين جيڪو مون گيئر ۽ بريڪ ۾ ويلڊ ڪرايو. ايترو ته ڊگھو پائيپ هو جو اگر آءُ هڪ هٿ اسٽرنگ مان ڪڍي بريڪ يا گيئر هڻا ته ڀا آساني هڻي سگھان اهو ڪم ڪرائي اسان پنهنجي ڳوٺ واپس پهتاسين ڪجھ ڏينهن مسلسل ڊرائيور سان گڏ رڪشا سکڻ لاءِ ويندو هيس منهنجي پرودگار جا لکين ڪرم ۽ بيحد شڪر گذار آهيان جنهن منهنجي هر خواهش پوري ڪئي هاڻ مونکي معزور هجڻ تي منهنجي رب کان ڪا شڪايت نه آهي. منهنجي حيثيت کان وڌيڪ مونکي خوشيون عطا ڪيون اٿس. 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
#SohailSangi, #MahdiShah, #ShafqatAliSha