Showing posts with label رحما ٹالپر. Show all posts
Showing posts with label رحما ٹالپر. Show all posts

Sunday, 27 March 2016

پروفائل: نظیر حسین پٹھان

I do not know what u have changed, except few starting line, which  have been edited. 
ان کا سوسائٹی میں کیا کنٹری بیوشن ہے؟ نوکری کرنا کوئی کنٹری بیوشن نہیں مانا جاتا۔ نوکری سے بڑھ کر انہوں نے اگر کچھ کیا ہے تو اس کا بیان ہونا چاہئے۔ کوئی زندگی کا دلچسپ واقعہ، وغیرہ۔ یہ تو ان کی سی وی ہے۔ جس سے کسی کو دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اسکو پروفائل کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔
 برائے مہربانی لکھنے میں پیراگراف کریں۔ 

پروفائل:نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر 
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
یوں تو علمی اور ادبی لحاظ سے بہت سے لوگوں کے نامور کتاب لکھے ہوئے ہیں اور آج لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ایک ایسی ہی شخصیت ہمارے بیچ ہیں جن کا نام نظیر حسین پٹھان ہے ۔ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے۔ نظیر حسین پٹھان 1اگست 1947میں اپنے گاﺅں چھجڑا تعلقہ قمبر ضلع میں پیدا ہوئے ان کا یہ گاﺅں ان گاﺅں کی طرح نہیں سمجھا اور جانا جاتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہ ہو اور چارو ںطرف سے جہالت نافذ ہو ۔ نظیر حسین پٹھان کا گاﺅں اس سماج میں دوسرے گاﺅں کے لیے ایک رول ماڈل ہے کیونکہ اس گاﺅں نے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کو دیے ہین جن میں سے ایک نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا گاﺅں آج بھی جانا اور مانا جاتا ہے۔نظیر حسین پٹھان نے اسی گاﺅں کے اسکول سے پانچ درجے پاس کیےا۔ ان کے باپ دادا نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 

نظیر پرائمری پڑھنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے لئے میونسپل ھائی اسکول قمبر میں داخلہ لیا۔1963ع میں انھوں نے میٹرک کا امتحان حیدرآباد بورڈ سے پاس کیا ،میڑک پاس کرنے کا بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلہ لیا جہاں سے اس نے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں سے اور دیگر گھر کے میمبروں سے صلاح مشورہ کیا اور ان کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلہ لیا ۔1966ع میں انٹر سائنس کیا اسی ہی کالیج سے اور 1969ع میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد نظیر حسین نے سندھ یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ میں 1971ع میں داخلہ لیا۔

اس زمانے ان کے ایک دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھائی اسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جاب کی آفر کی جو انھوں نے قبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیا۔وہاں ا ن کو انور پیر زادو سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میں کراچی سے نکلنے والا رسالہ ”سوجھرو“اور ”برسات“میں شایع ہوئی۔ ان کی پہلی نظم کا عنوان تھا (گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امر جلیل نے دیا تھا۔
ان کو اپنی پسند کی جاب ملی 9فروری پہ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے حیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج، سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔

ریٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔
آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میںسے شادی کی۔

کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ اور ان کو ایک جگہ پہ بلا کر فائدہ مند باتوں سے اوئیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑوس کے بچوں کو آگے پڑھنے کے لیے ہر وقت نصیحت کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی بات بڑے آرام اور باریک بینی سے سنتے ہیں اور اسی طرح ان کی نصیحت کے اوپر کافی بچوں نے عمل کیا اور وہ آج بہت ساری پوسٹوں پر تائنات ہیں۔نظیر حسین پٹھان جیسے لوگ معاشرے میں امن کا دیپ جلاتے ہیں اور ان کو بھی ایسے کاموں کے لیے صدیوں تک ےاد رکھا جائے گا۔
 کا سوسائٹی میں کیا کنٹری بیوشن ہے؟ نوکری کرنا کوئی کنٹری بیوشن نہیں مانا جاتا۔ نوکری سے بڑھ کر انہوں نے اگر کچھ کیا ہے تو اس کا بیان ہونا چاہئے۔ کوئی زندگی کا دلچسپ واقعہ، وغیرہ۔ یہ تو ان کی سی وی ہے۔ جس سے کسی کو دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اسکو پروفائل کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔
 برائے مہربانی لکھنے میں پیراگراف کریں۔

پروفائل:نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر 
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
یوں تو علمی اور ادبی لحاظ سے بہت سے لوگوں کے نامور کتاب لکھے ہوئے ہیں اور آج لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ایک ایسی ہی شخصیت ہمارے بیچ ہیں جن کا نام نظیر حسین پٹھان ہے ۔ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے۔ نظیر حسین پٹھان 1اگست 1947میں اپنے گاﺅں چھجڑا تعلقہ قمبر ضلع میں پیدا ہوئے ان کا یہ گاﺅں ان گاﺅں کی طرح نہیں سمجھا اور جانا جاتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہ ہو اور چارو ںطرف سے جہالت نافذ ہو ۔ نظیر حسین پٹھان کا گاﺅں اس سماج میں دوسرے گاﺅں کے لیے ایک رول ماڈل ہے کیونکہ اس گاﺅں نے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کو دیے ہین جن میں سے ایک نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا گاﺅں آج بھی جانا اور مانا جاتا ہے۔نظیر حسین پٹھان نے اسی گاﺅں کے اسکول سے پانچ درجے پاس کیےا۔ ان کے باپ دادا نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 

نظیر پرائمری پڑھنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے لئے میونسپل ھائی اسکول قمبر میں داخلہ لیا۔1963ع میں انھوں نے میٹرک کا امتحان حیدرآباد بورڈ سے پاس کیا ،میڑک پاس کرنے کا بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلہ لیا جہاں سے اس نے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں سے اور دیگر گھر کے میمبروں سے صلاح مشورہ کیا اور ان کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلہ لیا ۔1966ع میں انٹر سائنس کیا اسی ہی کالیج سے اور 1969ع میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد نظیر حسین نے سندھ یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ میں 1971ع میں داخلہ لیا۔

اس زمانے ان کے ایک دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھائی اسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جاب کی آفر کی جو انھوں نے قبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیا۔وہاں ا ن کو انور پیر زادو سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میں کراچی سے نکلنے والا رسالہ ”سوجھرو“اور ”برسات“میں شایع ہوئی۔ ان کی پہلی نظم کا عنوان تھا (گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امر جلیل نے دیا تھا۔
ان کو اپنی پسند کی جاب ملی 9فروری پہ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے حیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج، سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔

ریٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔
آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میںسے شادی کی۔

کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ اور ان کو ایک جگہ پہ بلا کر فائدہ مند باتوں سے اوئیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑوس کے بچوں کو آگے پڑھنے کے لیے ہر وقت نصیحت کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی بات بڑے آرام اور باریک بینی سے سنتے ہیں اور اسی طرح ان کی نصیحت کے اوپر کافی بچوں نے عمل کیا اور وہ آج بہت ساری پوسٹوں پر تائنات ہیں۔نظیر حسین پٹھان جیسے لوگ معاشرے میں امن کا دیپ جلاتے ہیں اور ان کو بھی ایسے کاموں کے لیے صدیوں تک ےاد رکھا جائے گا۔


Referred back. This is Cv type. please read sample availabale on FB group and write as profile is written. Observe para. This can not be taken as profile.
پروفائل: نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
سندھ نے ہمیں بہت نامور شخصیتیں دی ہیں جن میںبہت سی تعلیمی ماہر اور ادبی اور علمی سے لحاظ سے بہت مشھور ہیں جن میں نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔ ان کا پورا نام نظیر حسین پٹھان ہے جو ان کے والد نے رکھا وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ وہ اسی نام سے مشھور ہوئے ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے ۔نظیر حسین پٹھان کا یوم پیدائیش 1 اگست 1947 جمعے کے دن۔ ان کے گاوئں کا نام چھجڑا تعلقہ قمبر ضلعہ لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ان کا گاوئں سندھ کا کوئی چھوٹا روایتی گاوئں نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں ترقی ےافتہ گاوئں تھا جس اسکول میںنظیر پٹھان صاحب نے پرائیمری تعلیم حاصل کی اسی اسکول سے ان کے باپ دادا نے ساتھ درجے سندھی یعنی فائنل پاس کیا ۔ان کے گھرانے میں تعلیمی شعور اور تعلیم سے محبت تمام قدیمی زمانے سے رہی ہے پرائیمری پاس کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کے لیے میونسپل ھاءاسکول قمبر میں داخل کیا گیا اس زمانے میں انگریزی پہلی کلاس کو standardکیا جاتا تھا ۔سیکنڈری تعلیم ساتویں کلاس انگریزی میٹرک کا امتحان مانا جاتا تھا جو سندھ یونیورسٹی لیتی تھی پھر اسی دوران بورڈ آف انٹرمیڈیئیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد قائم ہوا پھر نویں اور دسویں کے امتحان حیدرآباد بورڈ نے لینا شروع کیا 1963 میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا میٹرک پاس کرنے کے بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلا لیا جہاں سے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلا لینے کا فیصلہ کیا گورمنٹ کالیج(کالی موری) میں داخلا لیا 1966میں انٹر سائنس کیا اسی کالیج سے1969 میںB.s.c پاس کیا ۔B.s.c پاس کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش میں داخلا لیا 1971 میں آپ نے ماسٹرس کیا اس زمانے ان کے ایک واقف کار دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھاءاسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جانب کی آفر کی جو انھوں نے مقبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیاوہاں ان کو انور پیرزادہ صاحب سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میںکراچی سے نکلنے والا رسالہ(سوجھرو) اور (برسات) میں شایع ہوئی ان کی پہلی نظم کا عنواں تھا(گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امیر جلیل صاحب نے دیا تھا1972 1973کی بات ہے اسی زمانے میںفیملی پلاننگ جس کو اس وقت بہبودآبادی پلاننگ کہا جاتا تھا ۔بہبود آبادی پلاننگ آفیس میں جاب ملی لیکن آپ اس جاب سے مطمعن نہ ہوئے اور دسری جاب کی کوشش کرتے رہے آخر کار ان کو اپنی پسند کی جاب ملی9 فیبروری پہ پہلی پوسٹنگ گورمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے ھیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔رٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میں شادی کی آپ کی تین بیٹیاں ہیںآم رٹائرڈ ہونے کے بعد مختلف کالجزمیں لیکچرراور پرنسپل رہے ہیں فارغ وقت میں سندھی اخبار میں کالم لکھتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار شاعری بھی کر ڈالتے ہیں کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ 

Sunday, 6 March 2016

Matiari jo mawo

Revised 

  • Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
  • Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

Revised
مٹےاری کا ماوا 
رحمہ تالپر 
رول نمبر :50
ایماےپریویس
کراچی کا سی ویو پوائنٹ ،لاہور کے کھابے ، ملتان کا سو ہن حلوہ ، حیدرآباد کی چوڑیاں اسی طرح مٹےاری شہر جو پورے پاکستان میں اپنی ایک خاص پہچا ن رکھتا ہے یعنی مٹےاری کا ماوا پاکستان کے ہر شہر میں اپنی الگ پہچا ن کے باعث مشہورہے کوئی کسی کھابوں کی وجہ سے مشہور ہے تو کوئی شہر چوڑی کی وجہ سے کوئی سے تو کوئی شہر کسی فرنیچر کی وجہ سے جس طرح ہمارا شہر حیدراآباد بھی چوڑیوں کی ایک خاص پہچان رکہتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کے لوگ میٹھا بہت شوق سے کھاتے ہیں اس لیے جہاں کوئی میٹھی چیز اچھی ملتی ہے تو انسان کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتا ضلع مٹےاری حیدراآ باد شہر سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ آ پ جب مٹےاری میں داخل ہوتے ہیں تو جگہ جگہ آپکو آ دمی ماوا بیچتے ہوئے نظر آ تے ہیں کیونکہ وہ ماوا ہی مٹےاری شہر کی اصل پہچا ن ہے اس کے علاوہ اسی طرح مٹےاری کی قلفی بھی بہت مشہور ہے۔

مٹےاری کی خوبصورتی کا راز سرساز سنگیت،زراعت صنعت نہیں بلکہ یہاں کا ماوا پورے ملک میں مشہو ر سوغات کے طور پر جانا جاتا ہے۔مٹیاری ضلعے کی 50 بٹھیوں میں روزانہ ساڑھے چار ٹن دودھ میں 30 من ماوا بنتا ہے کچہ              ماوا(کھویہ)کراچی،حیدر آ باد،نوابشاہ،ٹنڈوالھیار،ٹنڈوو آ دم،ٹنڈوجام،میرپورخاص سمیت دیگر دوسرے شہروں میں بھی فروخت کیا جاتا ہے پورے ضلعے میں 50 سے ا وپر ماوے کی بھٹیاں ہیںقومی شاہراہ پر سندھ سمیت پورے ملک کے لوگ گاڑیاں کھڑی کرکے ما وا اور قلفی شوق سے کھاتے ہیںاور اپنے ہمراہ اپنے پےاروں کے لیے بھی لے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ملکوں میں میں بھی ہمارا ماوا لے جاےا جاتا ہے جس میں سعودی عرب، ایران، اومان، بحرین،امریکا،دبئی جیسے نامور ملک شامل ہیں۔


 ماوے کے کاروبارکرنے والوں سے جب اس کی شراوات کے بارے میں پوچھاتو انہونے بتایا کے یہ ماوا 1950 سے پہلے کا بنتا آ رہا ہے اور پورے سندھ میں اس کو تحفے کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ رواج آ ج بھی قائم ہے کہ آج بھی سندھ کے علاوہ پاکستان کے صوبوں بلوچستان،پنجاب اور سرحد کے لوگ بھی آ رڈر پر ماوا بنواکر تحائف کے طور پر اپنے پیاروںکے لیے لے جاتے ہیں۔یہاں پر 50 سے زیادہ بٹھیاں موجود ہیں جہاں خالص دودھ سے سوکھی لکڑیوں کی ہلکی آ نچ پر ماوا تیار کیا جاتا ہے۔ اکژر بٹھیوں میں ۵ سے ۷ من روزانہ خالص دودھ پہنچایا جاتا ہے ایک اندازے مطابق روزانہ ساڑھے چار ٹن ماوا بنایا جاتا ہے جس کو کچہ ماوا یعنی(کھویہ)کہا جاتا ہے ماوے کے واپاری اس ماوے کو بڑے شہروں میں فروخت کرتے ہیں کچے ماوے کو 300سے 320 تک فی کلو فروخت جاتا ہے ۔

مٹےاری میں کچے ماوے میں چینی،الائچی اور دوسری کچھ چیزیں ملا کر میٹھا ماوا بنایا جاتا ہے ۔ سفید ماوا،دانے والا ماوا،گاجر کا ماوا،برفی ،دودھ کے پیڑے سمیت بہت قسم کے ماوے تیار کیے جاتے ہیں۔سفید ماوا 440 روپے فی کلو گاجر کا ماوا 450 فی کلو دودھ پڑے 450فی کلو دانے والا ماوا 400 فی کلو فروخت کیا جاتا ہے۔حیدرآ باد میں 520 روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے۔


مٹیاری کے ایک واپاری الھڈنو خاص کھیلی نے بتایا کہ جیسا دودھ صاف ہوتا ہے ماوا بھی اتنا ہی خالص ہوتا ہے جیسے مٹیاری ماوے کی وجہ سے مشہور ہے اس لیے ہم ہر چیز صاف اور ہر کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔ جب دوسرے واپاری یار محمد سے معلوم کیا اس نے بتایا کہ ہمارے کاروبار میں آ ج کل کوئی خاص مزہ نہیں ہے سردی کے موسم میں کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے اس سال سردی اتنی آ ئی نہیں ہے۔خرچے بڑھ گئے ہیں جس کے سبب بچت انتہائی کم ہے لکڑیاں 300 روپے فی من ملتی ہیں اس طرح مزدور 300 رو پے دہاڑی لیتا ہے اس کے بعد ماوے کو شہروں میں بھی پہنچانا ہوتا ہے اس لیے بچت بلکل نہیں لیکن کیا کریں کوئی دوسرا کام نہیں باپ دادا کے زمانے سے یہی کام کرتے آ رہے ہیں۔اور یہ سچ ہے کے محنت کرے تو انسان کیا کام ہے ممکن۔


Referred back 1.   مٹیاری کا ماوا کیوں مشہور ہے؟ وجہ کیا ہے؟
 ۲) اب مٹیاری والے خود بھی قلفی آئیس کرم وغیرہ کا کام بڑے پیمانے پر کرنے لگے ہیں۔
۴) ماوے کا اور کیا استعمال ہے؟ 
 حیدرآباد کی بڑی بڑی آئیس کریم کی دکانیں مٹیاری سے ماوا خرید کرتی ہیں
۳) صرف ماوا نہیں اجرک سازی بھی مٹیاری کی بڑی پہچان ہے۔ 
 ۴) پروف اور اسپیلنگ کی بہت زیادہ غطیاں ہیں۔ہر لائین میں دو تین غلطیاں ہیں ´ اس کو آپ دوبارہ پڑھیں۔ چکھ چیزیں اضافہ کییرں اور اسپیلنگ مسٹیکس ٹھیک کریں 
 ۵) فیچر ہمیشہ رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ جس کا بنیادی کام انٹرٹین کرنا ہے۔ اس لئے اس میں منظر کشی یا کہانی ڈالی جاتی ہے۔ 
 ۶) فیچر، پروفائیل اور انٹرویو میں فوٹو بھہ لازمی ہے۔ 
۷) فائیل کا نام درست نہیں۔ اگر آپ صرف فیچر فائیل نام دیں گے تو اس نام سے کئی فائیلیں ہونگی۔ کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کی فائیل کونسی ہے۔ اس ئے فیچر کے ساتھ آپ اپنا نام بھی ضرور لکھیں۔ آئندہ ایسا نہیں گوا تو آپ کی تحریر پر غور نہیں کیا جائے گا۔ 
۸)دوبارہ بھیجو تو سبجیکٹ لائین اور فائیل نام میں ریوائیذڈ لفظ ضرور لکھنا

مٹےاری کا ماوا
رحما تالپر 
رول نمبر :۰۵
ایم اے پریویس

مٹےاری شھر جو پورے پاکستان میں اپنی ایک خاص پحچان رکھتا ہےوہ ہے مٹےاری کا ماوا پاکستان کے ہر شھر کی اپنی الگ الگ پحچان ہے کوئی کسی مٹھائی کی وجہ سے مشھور ہے تو کوئی ش شھر مہندی کی وجہ سے کوئی تو کوئی شھر کسی کڑھائی کے کام کی وجہ سے تو کوئی شھر کسی فرنیچر کی وجہ سے۔ہمارے ملک پاکستان کے لوگ میٹھا بہت شوق سے کھاتے ہیں اس لیے جہاں کوئی میٹھی چیز اچھی ملتی ہے تو انسان کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتامٹےاری شھر حیدرا ¿باد شھر کے ا ¿دھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے ا ¿پ جب مٹےاری میں داخل ہوتے ہیں تو جگہ جگہ ا ¿دمی ماوا بیچتے ہوئے نظر وا ¿تے ہیں کیونکہ وہ ماوا ہی مٹےاری شھر کی پحچان ہےمٹیاری ضلعے میں ماوے کے علاوہ مٹےاری کی قلفی بھی بہت مشھور ہے۔

مٹےاری کی خوبصورتی کا راز فقط سر،ساز،سنگیت،زراعت صنعت نہیں بلکہ یہاں کا ماوا پورے ملک میں مشھور سوغات کے طور پر جانا جاتا ہے۔مٹیاری ضلعے کی۰ ۵ بٹھیوں میں روزانہ ساڑھے چار ٹن دودھ میں ۰۳من ماوا بنتا ۔ کچاماوا(کھویہ)کراچی،حیدرا ¿باد،نوابشاہ،ٹنڈوالھیار،ٹنڈووا ¿دم،ٹنڈوجام،میرپورخاص سمیت دوسرے شھروں میں بحیجا جاتا ہے پورے ضلعے میں ۰۵ سے اور اوپر ماوے کی بھٹیاں ہیںقومی شاہراہ پر سندھ سمیت پورے ملک کے لوگ گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں ماوا اور قلفی شوق سے کھاتے ہیں۔

مٹیاری کے ماوے کے واپاریوں اور کاریگروں کے مطابق ماوا ۰۴۹۱ سے پہلے بنتا ا ¿رہا ہے اور پورے سندھ میں اس کو تحفے کے طور پر دیا جاتا ہے یہ رواج ا ¿ج بھی قائم ہے ا ¿ج بھی سندھ سمیت بلوچستان،پنجاب کے لوگ بھی ا ¿رڈر پر یہ ماوا بنواکر تحفہ لے جاتے ہیںمٹیاری ضلعے میں ۰۵ سے زیادہ بٹھیاں موجود ہیں جہاں خالص دودھ سے سوکھی لکڑیوں کی ہلکی ا ¿نچ پر بناےا جاتا ہے۔ اکژر بٹھیوں میں ۵ سے ۷ من روزانہ خالص دودھ پہنچایا جاتا ہے ایک اندازے مطابق روزانہ ساڑھے چار ٹن ماوا بنایا جاتا ہے جس کو کچہ ماوا یعنی(کھویہ)کہا جاتا ہے ماوے کے واپاری اس ماوے کو بڑے شھروں میں بھیجتے ہیں کچے ماوے کو ۰۰۳سے۰ ۲۳ تک فی کلو بیچا جاتا ہے ۔

مٹےاری میں کچے ماوے میں چینی،الائچی اور دوسری کچھ چیزیں ملا کر میٹھا ماوا بنایا جاتا ہے ۔مٹیاری میں سفید ماوا،دانے والا ماوا،گاجر کا ماوا،برفی ،دودھ پڑے سمیت بہت ماوے بنائے جاتے ہیں۔مٹےاری سفید ماوا ۰۴۴ روپے فی کلو گاجر کا ماوا۰۵۴ فی کلو دودھ پڑے۰۵ ۴فی کلو دانے والا ماوا۰۰ ۴ فی کلو بیچا جاتا ہے۔حیدرا ¿باد میں۰۶ ۵ روپے فی کلو بیچا جاتا ہے۔
مٹیاری کے ایک واپاری الھڈنو خامکیلی نے بتایا کہ جیسا دودھ صاف ہوتا ہے ماوا بھی اتنا ہی خالص ہوتا ہے جیسا کہ مٹیاری ماوے کی وجہ سے مشھور ہے اس لیے ہم ہر چیز صاف اور ہر کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔ جب دوسرے واپاری یار محمد سے معلوم کیا اس نے بتایا کہ ہمارے کاروبار میں ا ¿ج کل کوئی خاص مزہ نہیں ہے سردی کے موسم میں کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے اس سال سردی اتنی ا ¿ئی نہیں ہے۔خرچے بڑھ گئے ہیں جس کے سبب بچت انتہائی کم ہے لکڑیاں ۰۰۳ فی من ملتی ہیں اس طرح مزدور ۰۰۳ دہاڑی لیتا ہے اس کے بعد ماوے کو شھروں میں بھی پہنچانا ہوتا ہے اس لیے بچت بلکل نہیں لیکن کیا کریں کوئی دوسرا کام نہیں باپ دادا کے زمانے سے یہی کام کرتے ا ¿رہے ہیں۔

Wednesday, 2 March 2016

حیدرآباد میں بھکاري

آرٹیکل
حیدرآباد میں فقیروں کی بھرمار
  2K16/MMC/50
M.A Previous
رحما  ٹالپر
تاریخ لکھنے والوں نے ھمیشہ غریب  طبقوں کو تاریخ سے علیحدہ کردیا ہے ہمیشہ ایسے طبقے کو عليحدہ سمجھا ہے۔ سماج میں امیر اور غریب کے بیچ میں ایک بڑی دیوار حائل ہے۔ فقیروں کا تعلق بھی ایک ایسے طبقے سے ہے جن کا دارو مدار امیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ہر مذہب میں خیراتی کاموں کو پسند کیا گیا ہے۔

سماج کے فقیروں کا ایک ایسا گروہ جس سماج میں ہر طرف نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب تاریخ میں ان کا ذکرآتا ہے تو امیر طبقے کا امیج بہتر کرنے کی خاطر اس طبقے کو سماج میں رعائیش حاصل کرنے والا  طبقا دکھایا جاتا ہے۔جرمن فلاسفر کا کہنا  ہے کے ہمدردی رحمدلی کے اخلاقی اقدار سماج میں غریب لوگوں کے طبقے کو فوقیت دینا ہے۔فقیروں کے کتنے ہی اقسام ہیں جن میں رومن فلاسفر سینیسا کا کہنا ہے رومن بادشاہت کے زمانے میں بھی پروفیشنل فقیر ہوا کرتے تھے،  اس زمانے میں بھی لوگ بچوں کو اغوا کر کے ان کے بازو یا ٹانگ  توڑ کر ان سے بھیک منگواتے تھے۔بھیک میں ملی ہوئی رقم وہ اپنے بڑوں کو دیتے تھے جس کے بدلے میں وہ صرف ان کو کھانا وغیرہ دیتے تھے  یہ سلسلہ  آج تک جاری ہے۔

کچھ مذاہب میں بھیک مانگنے کو خدا پرستی کا جذبا کہا گیا ہے بدھ دھرم  مرد اور عورت پکشو(فقیر)موجود ہیں۔  جب کے اس مذھب میں عورت کو کوئی ملکیت رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نا ہی معاشرے سے کوئی تعلق۔
ہمارے سماج میں جاگیرداری کلچر کے سبب زیادتی آئی ہے امیر اور دولتمند لوگ غریب اور بھوکے لوگوں کو  کھانا کھلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے وہ معاشرے میں اپنی عزت بڑھانا چاہتے ہیں،  تو طے ہے کے خیرات کے ذریعے نا تو غربت ختم کی جاسکتی ہے اور نا خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
معاشرے میں بھیک مانگنے والا مرض صرف حکومت کی طرف سے تعلیم صحت روزگار اور لوگوں میں فلاحی کاموں میں ذمیداری ڈالنے سے ختم ہوسکتا ہے۔

فقیر ایک ایسی مخلوق ہیں جو ہر پاس پڑوس میں بس اسٹاپ مزاروں پر ہسپتال ہر جگا پر نظر آتے ہیں۔فقیروں میں معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو ہرگذرنے والے سے خیرات مانگتے نظر آتے ہیں۔اسلام میں بھیک مانگے کو سخت نا پسند کیا  گیا ہے۔ بھیک مانگنے والی عورتوں کی بہت تعداد گلیوں روڈوں پر نظر آتی ہے جو اپنے معصوم بچوں کو اٹھاۓ ان کو خیرات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

حیدرآباد شہر میں فقیروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔جو مختلف حصوں میں بٹے ہوۓ ہیں۔ جن میں قاسم آباد، وحدت کالونی، بکرا منڈی، ریلوے اسٹیشن، لطیف آباد، سول اسپتال اور  ہیرآباد مشھور ایریا ہیں۔ 

حیدرآباد علاقے مشہور بلال ہوٹل ہے جس کا مالک ارفان ہے وہ خاص فقیروں کے لیے مخصوص ہے یہاں روزانا چالیس سے پچاس فقیر کھانا کھاتے ہیں۔ روزانا دو  وقت   کا کھانا دیا جاتا ہے۔ کبھی دال ، سبزی  یا کبھی  گوشت  دیا  جاتا ہے۔  ہوٹل پر لوگ خیرات صدقا وغیرہ کے پیسے جمع کراتے ہیں جن سےیہ  ہوٹل چلتا ہے۔ وہیں موجود فقیر جس کا نام پیر محمد ہے جن کا تعلق سبزی منڈی سے ہے اس نے بتایا ک وہ پہلے مذدوری کرتا تھا جس سے وہ تین چار سو روزانا کاماتا تھا اس کے سارے گھر والے کماتے ہیں لیکن وہ اپنی مرضی سے بھیک مانگتا ہے، کیونکے وہ اس کی صحت پحلے والی نہیں جس کی وجا سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوا بھیک مانگنے سے دو تین سو روپے مل جاتے ہیں جن سے وہ اپنی دوایاں وغیرہ لے لیتا ہے۔ 

ایک دوسرے فقیر جوڑے میاں بیوی نے بتایا جس کا نام الاہی بخش  اور بیوی کا نام صفوراں ہے،  انہوں نے کہا کے کچھ سال پہلے ہم خوشحال زندگی گذار رہے تھے عمر کے آخری حصے میں بے رحم اولاد نے دونوں کو نکال دیا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

فقیروں کی تعداد اتنی بھڑ گئ ہے  کے  ان سے تعلیمِ ادارے بھی محفوظ نھیں ہیں آپ سندھ یونیورسٹی کو دیکھ لیں وہاں فقیر اتنے زیادہ ہو گئے  ہیں کے  شاگرد بھی ان سے محفوض نہیں ہیں۔  ہر ڈپارٹمینٹ میں فقیر آتے ہیں اور شاگردوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ اور ان کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں بھیک لینے کے بغیر نہیں چھوڑتے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی فرض ہے ہم پیشاور فقیروں کو پیسے نا دیں کے اس غلط کام کا خاتمہ ہوسکے۔  اس کے علاوہ اپنے آس پاس رہتے ضرورت مندوں کا خیال رکھیں پشاور صفید پوشاک ضرورت مند لوگ ہی اصل اور زکوات کے حقدار ہیں۔ 

پیشوار فقیروں کی زندگی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کی وہ کتنا بھی بھیک مانگ لے پیسہ جمع  کرے پھر بھی وہ زندگی کی اسائیشون سے محروم ہوتے ہیں معاشرے میں  ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےجو اکثر بیماری بھوک اور بدحلی کا شکار ہوتے ہیں 

مہنگائی اور بے روزگاری نےفقیروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے سال دو ہزار دس پاکستان کی تاریخ کی بدترین سیلابہ جس نے پورے ملک کے ساتھ ساتھ سندھ کو متاسر کیا ان میں جیکب آباد ،کشمور ،شکارپور قمبر شدادکوٹ، لاڑکانہ ، دادو، ٹھاٹہ اور سجاعل شہر بہت ذیادہ متاثر ہوئے ان علاقوں کو لوگوں نے سیلاب کے سبب اپنی جانیں بچاتے ہوئے بڑے شہروں کا  رُخ کیا جس میں ؔحیدرآباد شہر سرِپرست ہے تاریخ کے بدترین سیلاب نےغریب لوگوں کے گھربار مال و ملکیت مکمل طور پر تباھ ہوگئے ایک تو پھلے ہی غربت بدحالی اوپر سے سیلاب نے تو لوگوں بے حال کر دیا وہ ابھی بھی حیدرآباد شہر کی سبزی منڈی    سمیت مختلف علاقوں میں بد حالی کا شکار ہے جن میں سے اکثر پیشاور فقیر بن چکے ہیں۔ ۔۔رحما  ٹالپر
 ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

Friday, 12 February 2016

Interview with Habibullah Siddiqui - by Rehma Talpur

To be checked

Interview from Habibullah Siddiqui
Rehma Talpur
M.A previous

Habibullah Siddiqui was born on 1st January 1937 belongs to dadu city. He is  a retired chairman of Sindh Adabi Board. He did Ph.D. in Muslim History. He is a gold medalist in Masters in Education and a Research Scholar and author of more than one dozen books. He has served in the field of education for 43 years as a teacher, teacher trainer, educational administrator and curriculum expert. He has received several gold medals, trophies and awards for his contribution in the field of
education.

Q: What was the reason which compels you to write?
Ans:   My thoughts, experiments and observations of others become reason of my literature life.

Ques#2: Who inspired you to become a writer?
Ans:   I inspired from others so that’s why I am learning from others. At first I used to read social and historical novels of Mohammad Osman Deeplai then I got Muhammad Ibrahim Joyo’s Amli books in schools. I was fond of reading his books.
Ques#3: What is the basic cause of literature?
Ans:   The basic cause of literature is to train a mind. We need literature to train the minds of people in society which make thoughts for prosperity and successful life and make new generation better.
Ques#4: What topic have you raised in books?
Ans:   I have written history, education and principles of life and poetry.
Ques#5: There is a lack of novels in Sindhi literature what are the reason?
Ans:   Novel is taken in Sindh literature from outside. Some writer’s penned it and some not. Story is the queen of Sindh literature but it should be short. Novels means a new or same strange thing whoever has treasure of past and have true stories will never get their mind towards novels.
Ques#6: Which of your books are famous and which are still not published?
Ans:   History of humans, Biography the Son of Desert, Babul Islam is famous out of many others. Those which are not completed are yet to be published.
Ques#7: In today’s Era how much Sindh literature is read?
Ans:   The amount of books and newspapers publish is the proof that how many times it read.
Ques#8: what thing you like most in any writer?
Ans:   Writer’s simplicity, clear meaning and use of easy words I like very much. Moreover if I come to know anything new, new ideology or new information from that writing, I appreciate it and read it again and again. Eligible writer’s writing every time gives me a new way, a new light and a new meaning that fits in my mind.
Ques#9: What can be betterment of Sindh’s education for new generation?
Ans:   Education is a basic right of humans, for the betterment of education system we should organize some academic institution at high levels, for this purpose we should train our teachers as well so that they can polish our brilliant students. Sindh government should take steps seriously for making education system better.
Ques#10: After media what is the situation of literature?
Ans:    Due to media the quality of literature is badly affected there is language grammar and pronunciation because of media the storm of information has emerged and thus the quality of storm cannot be kept same earlier it was focused on quality but now it’s on quantity.
Ques#11: The journalism has taken over the literature in this era? What is its background; is it right?
Ans:    The period of literature has changed because politics has forced this literature period can never come to an end. It has to proper even more and for this the writers and poets are playing their vital roles.
Ques# 12: How do you see life?
Ans:     Life is a blessing; which we get every morning as we wake up every day it should be spend as its fullest way whether we see tomorrow’s sun or not. 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro