Showing posts with label Hyderabad. Show all posts
Showing posts with label Hyderabad. Show all posts

Friday, 1 April 2016

حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو Hyderabad

 حیدرآباد  میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو
 shahrukh
شاہ رخ 

پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں ۔
جہاں ہرروز تین لاکھ کلوسے زیادہ کچراپھیکا جاتاہے۔

شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔

 حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔

 شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔

حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کیلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔

 حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں۔

دوسری طرف ایڈمنسٹریٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹریاں،فائلوں میں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں شہر میں صفائی ستھرائی کانظام ناپیدہوکر رہ گیا ہے حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس ۔غیرقانونی ترقیوں اوردیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
shahrukh
M.A(previous)
Roll no #2k16MMC-71 
Under supervision of Sir Sohail Sangi
 #Hyderabad, #shahrukh

Wednesday, 2 March 2016

بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ھو- Shahrukh- Hyderabad,

Again revised.
 Instead of correcting it in inpage u sent it in word. Mind it  for publication in roshni we need in inpage format. not in word. U instead of correcting it in inpage , u sent it in word format, which is not editable. Please send it in standard format  in future 

شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو
(شاہ رخ حیدرآباد سندھ)
پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں ۔
جہاں ہرروز تین لاکھ کلوسے زیادہ کچراپھیکا جاتاہے۔
شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔
 حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔
 شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کیلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
 حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں۔
دوسری طرف ایڈمنسٹریٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹریاں،فائلوں میں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں شہر میں صفائی ستھرائی کانظام ناپیدہوکر رہ گیا ہے حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس ۔غیرقانونی ترقیوں اوردیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
shahrukh
M.A(previous)

Roll no #2k16MMC-71

Revised . Many composing mistakes. U used ے, instead of ی.  In inpage it apparently seems ok, when we go in editing and convert it in word format for web, it is broken
Referred back 
 شہر مےں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ھو
پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حےدرآباد جس کی آبادی تقرےباً پےنتالےس لاکھ ہےں ۔
جہاں ہرروز تےن لاکھ کلوسے زےادہ کچراپھےکا جاتاہے۔

شاہ رخ (حےدرآبادسندھ)
شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیںجس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کےلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔
حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔ حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔ 
شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کےلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کےلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کےلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیںمگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میںصفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں ۔دوسری طرف اےڈمنسٹرےٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹرےاں،فائلوںمےں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہےں کوئی سننے والا نہےں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھےر لگے ہےں شہر مےں صفائی ستھرائی کانظام ناپےدہوکر رہ گےا ہے حکومت سندھ کو چاہےے کہ سپرےم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدےہ اعلیٰ حےدرآباد مےں او۔پی۔اےس ۔غےرقانونی ترقےوں اوردےگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طرےقے سے مےرٹ کی بنےاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدےہ کے نظام کو منظم طرےقے سے چلاسکے کہےں اےسا نہ ہو کہ شہر حےدرآباد کچرے کے ڈھےر تلے دب جائے۔




writer??
 wrting category?
 No para, 
 Composing mistakes, 
 Which city?
Referred back

 شہر مےں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ھو
پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حےدرآباد جس کی آبادی تقرےباً پےنتالےس لاکھ ہےں ۔
جہاں ہرروز تےن لاکھ کلوسے زےادہ کچراپھےکا جاتاہے۔
شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیںجس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کےلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔ حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔ شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کےلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کےلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کےلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیںمگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میںصفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں ۔دوسری طرف اےڈمنسٹرےٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹرےاں،فائلوںمےں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہےں کوئی سننے والا نہےں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھےر لگے ہےں شہر مےں صفائی ستھرائی کانظام ناپےدہوکر رہ گےا ہے حکومت سندھ کو چاہےے کہ سپرےم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدےہ اعلیٰ حےدرآباد مےں او۔پی۔اےس ۔غےرقانونی ترقےوں اوردےگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طرےقے سے مےرٹ کی بنےاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدےہ کے نظام کو منظم طرےقے سے چلاسکے کہےں اےسا نہ ہو کہ شہر حےدرآباد کچرے کے ڈھےر تلے دب جائے۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

بے لگام مشینی گھوڑے کا لطیف آباد کی سڑکوں پر راج

No proper file name. We do not need PDF or Rar format. just need inpage. category of  write up should be mentioned. and writers  name in language the piece is sent.
 If sent next time in this manner, ir will be rejected.
 Is this topic approved? 
Referred back

 اس کا رائٹر کون ہے؟ کوئی پیرا گراف نہیں۔ آرٹیکل میں اعدا وشمار ، تحقیقی رپورٹس ، ماہرین کی رائے وغیہر شامل ہوتی ہے
یہ چار سو الفاظ ہیں۔ کل چھ سو سے زائد چاہئیں۔ کیا یہ ٹاپک منظور شدہ ہے۔
بے لگام مشینی گھوڑے کا لطیف آباد کی سڑکوں پر راج


 ویسے تو مو ٹر سائیکل سوار کے لیے ایک سستی سواری ہے اور کم خرچ میں اس کے زریعے سفر کیا جا سکتا ہے لیکن سستی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں احتیاط اور کچھ اصول بھی ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میںاور اسکے چلانے میں جدت بھی آئی ہے اسکے چلانے کے نئے طریقوں میں موٹر سائیکل کرتب بھی شامل ہیں جو آجکل کے نوجوانوں میں سر چڑھ کر بول رہا ہے اس مرض میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کم عمر بچے بھی مبتلا ہیںجو اس بے لگام مشینی گھوڑے کو تیزی سے دوڑائے پھرتے ہیں اور حادثات کو کھلی دعوت دیتے ہیں اور ایسے اسکا شکار بن جاتے ہیں جیسے جنگل کا بادشاہ(شیر) اپنے شکار کو شکار بنالیتا ہے اسی طریقے سے یہ مشینی گھوڑا جب حادثے کا شکار بنتا ہے تو اپنے سوار کی ہڈیاں توڑ دیتا ہے اور بعض اوقات اپنے سوار کی زندگی کو موت سے مات دلوا دیتا ہے ایسی ہی صورتحال آج کل شہرحیدر آباد، لطیف آباد میں دکھائی دیتی ہے اور مقامی پولیس کے مطابق لطیف آباد میں روز بروز حادثات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسکے علاوہ مقامی ہسپتالوں کی رپورٹ کے مطابق ہسپتالوں میں درجنوں کیس ایسے آرہے ہیں جو ان حادثات سے بری طرح متاثر ہو کر معضوری کا شکار ہو گئے ،پچھلے چند سالوں سے ہمارے نو جوان اور کم عمر بچے اس مرض مبتلا ہیں تاہم اس بیماری کے علاج کو کھوجنے میں ہماری فرض شناس حکومت ناکام ہے تو دوسری جانب ےہ بھی حقیقت ہے کہ علاج سے بہتراحتیاط ہے جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ موٹر سائیکل رایڈنگ نا صرف ایک فن ہے بلکہ اسکے صحیع استعمال میں اگر ہماری فرض شناس حکومت دل چسپی کا مظاہرہ کرے اور انکو کرتب کے تربیتی ٹھکانے فراہم کرے جیسے کے دیگر ممالک میں موٹر سائیکل ریس جیسے ایونٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے تو اس بے لگام مشینی گھوڑے کو اور وقت کو مات دینے کی سوچ رکھنے والے لوگوں کوجو اپنے آپ کو اور معصوم شہریوں کو موت کے چنگل میں دھکیل رہے ہیں ان پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ان کے فن کو مثبت سمت میں استعمال کر کے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا جا سکتا ہے۔

Nabeel/////

حیدرآباد میں بھکاري

آرٹیکل
حیدرآباد میں فقیروں کی بھرمار
  2K16/MMC/50
M.A Previous
رحما  ٹالپر
تاریخ لکھنے والوں نے ھمیشہ غریب  طبقوں کو تاریخ سے علیحدہ کردیا ہے ہمیشہ ایسے طبقے کو عليحدہ سمجھا ہے۔ سماج میں امیر اور غریب کے بیچ میں ایک بڑی دیوار حائل ہے۔ فقیروں کا تعلق بھی ایک ایسے طبقے سے ہے جن کا دارو مدار امیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ہر مذہب میں خیراتی کاموں کو پسند کیا گیا ہے۔

سماج کے فقیروں کا ایک ایسا گروہ جس سماج میں ہر طرف نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب تاریخ میں ان کا ذکرآتا ہے تو امیر طبقے کا امیج بہتر کرنے کی خاطر اس طبقے کو سماج میں رعائیش حاصل کرنے والا  طبقا دکھایا جاتا ہے۔جرمن فلاسفر کا کہنا  ہے کے ہمدردی رحمدلی کے اخلاقی اقدار سماج میں غریب لوگوں کے طبقے کو فوقیت دینا ہے۔فقیروں کے کتنے ہی اقسام ہیں جن میں رومن فلاسفر سینیسا کا کہنا ہے رومن بادشاہت کے زمانے میں بھی پروفیشنل فقیر ہوا کرتے تھے،  اس زمانے میں بھی لوگ بچوں کو اغوا کر کے ان کے بازو یا ٹانگ  توڑ کر ان سے بھیک منگواتے تھے۔بھیک میں ملی ہوئی رقم وہ اپنے بڑوں کو دیتے تھے جس کے بدلے میں وہ صرف ان کو کھانا وغیرہ دیتے تھے  یہ سلسلہ  آج تک جاری ہے۔

کچھ مذاہب میں بھیک مانگنے کو خدا پرستی کا جذبا کہا گیا ہے بدھ دھرم  مرد اور عورت پکشو(فقیر)موجود ہیں۔  جب کے اس مذھب میں عورت کو کوئی ملکیت رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نا ہی معاشرے سے کوئی تعلق۔
ہمارے سماج میں جاگیرداری کلچر کے سبب زیادتی آئی ہے امیر اور دولتمند لوگ غریب اور بھوکے لوگوں کو  کھانا کھلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے وہ معاشرے میں اپنی عزت بڑھانا چاہتے ہیں،  تو طے ہے کے خیرات کے ذریعے نا تو غربت ختم کی جاسکتی ہے اور نا خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
معاشرے میں بھیک مانگنے والا مرض صرف حکومت کی طرف سے تعلیم صحت روزگار اور لوگوں میں فلاحی کاموں میں ذمیداری ڈالنے سے ختم ہوسکتا ہے۔

فقیر ایک ایسی مخلوق ہیں جو ہر پاس پڑوس میں بس اسٹاپ مزاروں پر ہسپتال ہر جگا پر نظر آتے ہیں۔فقیروں میں معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو ہرگذرنے والے سے خیرات مانگتے نظر آتے ہیں۔اسلام میں بھیک مانگے کو سخت نا پسند کیا  گیا ہے۔ بھیک مانگنے والی عورتوں کی بہت تعداد گلیوں روڈوں پر نظر آتی ہے جو اپنے معصوم بچوں کو اٹھاۓ ان کو خیرات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

حیدرآباد شہر میں فقیروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔جو مختلف حصوں میں بٹے ہوۓ ہیں۔ جن میں قاسم آباد، وحدت کالونی، بکرا منڈی، ریلوے اسٹیشن، لطیف آباد، سول اسپتال اور  ہیرآباد مشھور ایریا ہیں۔ 

حیدرآباد علاقے مشہور بلال ہوٹل ہے جس کا مالک ارفان ہے وہ خاص فقیروں کے لیے مخصوص ہے یہاں روزانا چالیس سے پچاس فقیر کھانا کھاتے ہیں۔ روزانا دو  وقت   کا کھانا دیا جاتا ہے۔ کبھی دال ، سبزی  یا کبھی  گوشت  دیا  جاتا ہے۔  ہوٹل پر لوگ خیرات صدقا وغیرہ کے پیسے جمع کراتے ہیں جن سےیہ  ہوٹل چلتا ہے۔ وہیں موجود فقیر جس کا نام پیر محمد ہے جن کا تعلق سبزی منڈی سے ہے اس نے بتایا ک وہ پہلے مذدوری کرتا تھا جس سے وہ تین چار سو روزانا کاماتا تھا اس کے سارے گھر والے کماتے ہیں لیکن وہ اپنی مرضی سے بھیک مانگتا ہے، کیونکے وہ اس کی صحت پحلے والی نہیں جس کی وجا سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوا بھیک مانگنے سے دو تین سو روپے مل جاتے ہیں جن سے وہ اپنی دوایاں وغیرہ لے لیتا ہے۔ 

ایک دوسرے فقیر جوڑے میاں بیوی نے بتایا جس کا نام الاہی بخش  اور بیوی کا نام صفوراں ہے،  انہوں نے کہا کے کچھ سال پہلے ہم خوشحال زندگی گذار رہے تھے عمر کے آخری حصے میں بے رحم اولاد نے دونوں کو نکال دیا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

فقیروں کی تعداد اتنی بھڑ گئ ہے  کے  ان سے تعلیمِ ادارے بھی محفوظ نھیں ہیں آپ سندھ یونیورسٹی کو دیکھ لیں وہاں فقیر اتنے زیادہ ہو گئے  ہیں کے  شاگرد بھی ان سے محفوض نہیں ہیں۔  ہر ڈپارٹمینٹ میں فقیر آتے ہیں اور شاگردوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ اور ان کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں بھیک لینے کے بغیر نہیں چھوڑتے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی فرض ہے ہم پیشاور فقیروں کو پیسے نا دیں کے اس غلط کام کا خاتمہ ہوسکے۔  اس کے علاوہ اپنے آس پاس رہتے ضرورت مندوں کا خیال رکھیں پشاور صفید پوشاک ضرورت مند لوگ ہی اصل اور زکوات کے حقدار ہیں۔ 

پیشوار فقیروں کی زندگی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کی وہ کتنا بھی بھیک مانگ لے پیسہ جمع  کرے پھر بھی وہ زندگی کی اسائیشون سے محروم ہوتے ہیں معاشرے میں  ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےجو اکثر بیماری بھوک اور بدحلی کا شکار ہوتے ہیں 

مہنگائی اور بے روزگاری نےفقیروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے سال دو ہزار دس پاکستان کی تاریخ کی بدترین سیلابہ جس نے پورے ملک کے ساتھ ساتھ سندھ کو متاسر کیا ان میں جیکب آباد ،کشمور ،شکارپور قمبر شدادکوٹ، لاڑکانہ ، دادو، ٹھاٹہ اور سجاعل شہر بہت ذیادہ متاثر ہوئے ان علاقوں کو لوگوں نے سیلاب کے سبب اپنی جانیں بچاتے ہوئے بڑے شہروں کا  رُخ کیا جس میں ؔحیدرآباد شہر سرِپرست ہے تاریخ کے بدترین سیلاب نےغریب لوگوں کے گھربار مال و ملکیت مکمل طور پر تباھ ہوگئے ایک تو پھلے ہی غربت بدحالی اوپر سے سیلاب نے تو لوگوں بے حال کر دیا وہ ابھی بھی حیدرآباد شہر کی سبزی منڈی    سمیت مختلف علاقوں میں بد حالی کا شکار ہے جن میں سے اکثر پیشاور فقیر بن چکے ہیں۔ ۔۔رحما  ٹالپر
 ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro