Showing posts with label ثناء شیخ. Show all posts
Showing posts with label ثناء شیخ. Show all posts

Monday, 28 March 2016

Shaista Parveen Profile by Sana Shaikh

Shaista Parveen  Profile by Sana Shaikh
ثناء شیخ 
رول نمبر55 
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن 
ایم۔اے پریویس 
پروفائل
شائستہ پروین
شائستہ پروین ایک سماجی کارکن اور کامیاب بزنس ویمن کے نام سے جانی جاتی ہیں،آپ ۰۷۹۱ءکو گھوٹکی میں پیدا ہوئی،ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، ابھی دس جماعت مکمل ہی کی تھیں کہ آپ کی بہت چھوٹی عمرمیں شادی کرادی گئی آپ کے والد مجیب علی جو خود ایک استاد رہہ چکے تھے ،انہوں نے آپ کے لئے شریک حیات بھی ایک استاد ہی کو منتخب کیا ،شادی کے کچھ عرصے بعد ہی آپ اپنے شوہر کے ہمراہ سکھرمنتقل ہوگئیں اور اپنی ازدواجی زندگی سکھرمیں گذارنے لگیں،آپ کی دوبیٹیاں ہیں،جن میں سے بڑی بیٹی ڈاکٹری کے شعبہ سے منسلک ہے ،جب
کہ چھوٹی بیٹی فیشن ڈیزائنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے اوربزنس کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں گامزن ہے ۔
شائستہ پروین کے خاوند غفار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا،جو کے ایک پرائیویٹ اسکول میں شعبہ اسلامیات کے ٹیچر تھے ،کچھ وقت ہی گزراتھا کہ آپ کے خاوند روڈایکسیڈینٹ میں دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔آپ نے اپنی زندگی میں ایسا قیامت خیز وقت بھی دیکھا جب دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی اورنہ ہی پہننے کو اچھے کپڑے تھے،اتنے مشکل حالات میں بھی آپ نے بہت دلیری اورہمت سے کام لیااور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خودمحنت کرکے حلال کمائی کو ترجیح دی، انسان چاہے زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو،مگر ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ہنر ضرورہوتا ہے اورایسا ہی ایک ہنر آپ کو وراثت میں ملا،سلائی کڑھائی ہو یا کشیدہ کاری ،سادی کڑھائی کو یا موتی کڑھائی ہر طرح کی ڈیزائننگ میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔
شروعات میں آپ نے گھر گھر جاکر کڑھائی سلائی کے آرڈر لینا شروع کئے پھر آہستہ آہستہ آرڈرگھروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ بڑے بڑے دکانداراورفیکٹریوں سے بھی آپ کو کام ملنے لگا،مسلسل محنت اور لگن سے آپ نے”Hand Embroid“کے نام سے خودایک اکیڈمی شروع کی جہاں ہزاروں کی تعدادمیں گھریلو عورتیں ،لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کاکام سکھایا جاتا تھا۔
بطورسماجی کارکن بھی آ پ نے ہزاروں عورتوں کے مسائل کو نہ صرف حل کیا بلکہ ایساپلیٹ فارم بھی مہیا کیا جہاں وہ ایک خودمختارعورت بن کر ابھرسکیں اسی عزم کے ساتھ آپ نے ”پہچان اپنا ہنر “ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصدصرف عورتوں کو خود مختار بنانا ہی نہیں بلکہ ان عورتوںکے ہنر کو پہچان دلوانا تھا،ہنرمختلف پکوان میں مہارت کا ہو یا سوئیٹر بُننے کا ہو ہر چھوٹے بڑے کام کو فوقیت دی گئی۔اس مہم نے ہزاروں عورتوں کو روزگارمہیا کیا،جو گھربیٹھے باخوبی اپنے کام کو سرانجام دے رہی ہیں۔آپ نے مہم نہ صرف سکھر بلکہ اپنے آبائی شہر گھوٹکی میں بھی شروع کی اور وہاں بھی عورتوں کو وسائل فراہم کئے تاکہ ہر عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکیں،مختلف اقسام کی کڑھائی میں آپ کو مہارت حاصل تھی ہی لیکن ماڈرن زمانے کے فیشن اور ڈیزائننگ سے باخبر رہنے کے لئے آپ نے کراچی جاکر مختلف کورسس بھی کئے اور آج اپنی چھوٹی بیٹی کے ہمراہ ایک کامیاب بزنس ویمن کے طورپر اپنا بوتیک چلارہی ہیں۔
شائستہ پروین اردوزبان میں”زندگی اورتلخ لمحات“ کے نام سے کتاب بھی لکھ رہی ہیںجس میں کچھ لمحون کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان خود کو بہت حقیت سمجھتا ہے،خاص کر ایک گھریلو عورت جسے اللہ نے خدادات صلاحیتوں سے نوازا ہے،اگرہر عورت اپنی اہمیت کو سمجھ لے تو اسے آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
شائستہ پروین ایک خوش مزاج خاتون ہیں،جو عورتوں کے ہر چھوٹے بڑے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مہارت رکھتی ہیں آپ کو صرف عورتوں میں ہی مقبولیت حاصل نہیں بلکہ بڑے بڑے کاروباری آدمی بھی آپ کے ہنر اور کامیابی کی داددیتے ہیں۔آپ نے عورتوں کے ہر مقام میں اپنا رول باخوبی نبھایا ہے اور نبھارہی ہیں اگر آپ کوایک آئیڈیل خاتون کا نام دیا جائے توغلط نہ ہوگا۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

#Profile, #ShaistaParveen, #SohailSangi,  #Sana Shaikh 

Sunday, 6 March 2016

لوگ کیا کہیں گے

Revised
 still composing mistkaes, Needs proper prargraphing
 ثناءشےخ
رول نمبر:۵۵
مےڈےا اےنڈ کمےونےکےشن
اےم اے (پرےوےس)
 فےچر
﴾لوگ کےا کہےں گے﴿ 
کہنے کو تو یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔مگر دیکھا جائے تو ےہ تین الفاظ اور اےک سوال جو روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شخص کی زندگی ان کی خواہشات ،اور آرمانوں کو کچل رہا ہے ۔ایک ایسا سوال جہاں انسان کی ہر سوچ مفلوج ہوجاتی ہے ا نسان سوچتا بہت کچھ ہے مگر کرتا وہ ہی ہے جو عجیب الخلقت اس سے کروانا چاہتی ہے مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا،رائے ذاتی ہو ےا سماجی ،پر سوال ایک ہی ”کیا کہیں گے لوگ“ آخر کیا کہیں گے لوگ ہم کیوں سوچتے ہےںانسان خود سے زیادہ کیوں لوگوں کے خیالات پرمبنی ہے ےقےنا آپ نے بھی بچپن میں جب کبھی کوئی نیا کام کرنے کا ارادہ کیا ہوگا تو گھر سے ےہ جملہ ضرور سننے کو ملا ہوگا © © © © © © ”کہ لوگ دےکھےں تو کےا کہیں گے؟ ثقافت اور تہذیب کے نام پر کتنے ہی لوگوں کی زندگیوں کا فےصلہ سنا دےا جاتا ہے، کتنے ہی قصبے،گاﺅں،گوٹھ ہےںجہاں نہ لڑکی باہر پڑھنے جا سکتی ہے نہ اپنی مرضی سے اسے شادی کرنے کا کوئی حق ہے ۔آج بھی برادری اور ذات پات کے نظام نے ہزاروں لڑکےوں سے ان کے خواب ،ان کی آزادی چھین لی ہے اور وجہ کےا ؟ صرف ایک سوال لوگ کیا کہیں گے؟
میرے قصے میں یہ ہر اس کام کے لئے کہا جاتا تھا جو مےرے محلے مےں ےا تو نےا ہوتا ےا انوکھا چاہے وہ قمیض شلوار کے بجائے پینٹ شرٹ پہنے کی ہو ےا ہیرا سٹائل کو تبدیل کرنے سے لے کر اسٹیج پر پرفارمنس دینے سے لیکر اپنی بہنوں کے ساتھ باہر گھومنے جانے © ،غر ض ہر اس کام کے متعلق جو باقی دنیا نہ کرتی ہو۔
خیر ایسے بے شمار کام کے لئے بھی، جن سے مجھ کو ڈرایا گےا کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن ایسے بھی بیشمار کام تھے جو نہیںکر سکی ان لوگوں کے ڈر سے، اب افسوس اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ مجھے زندگی کے سارے سفر مےںوہ لوگ کہیں نہ ملے۔
ہمارا معاشرہ ےقینا تبدیلی سے ڈرتا ہے، اب کونسی تبدیلی؟ ےہ الگ بحث ہے مگر ڈرتا ہے، اورہمےں وہ لوگ ڈراتے ہیں جو خود ہم سے ڈرتے ہےں اور یہ چاہتے ہیںکہ ہم بھی انہی کی طرح سوچیں۔صدیا ں گزر گئی قدیم روایتی معاشرہ آج ماڈرن ہو گیا ہے مگر یہ روایت آج بھی سینہ بہ سےنہ لوگوں کے ذہن کو ”کےا کہےں گے لوگ“ سے آگے بڑھنے نہےں دیتی۔اےک رواج ہے جو زمانہ قدیم سے عمل مےں ہے۔اب سوشل مےڈیا کی ہی مثال لے لےں، یہاں ہر شخص آپ کو اپنے خیالات اور سوچ فروخت کرنے کے چکر میں ہے آپ اگر مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کریں تو لوگ آپ کو طالبان سے جھوڑ لیتے ہیں،بلوچستان کے مسائل کی بات کریں تولوگ آپ کو محب وطن سمجھنے سے کتراتے ہےں،ملالہ کی بات کریں تو لوگ آپ کو ایجنٹ کہنے لگتے ہیں نہ جانے کتنی اور مثالیںہےں۔تبدیلی لانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس تبدیلی کو عمل مےں لانے کی بات کوئی نہیں کرتا۔تنقید کرنے والے تو بہت ہےں مگر سراہنے والے بہت کم ۔آپ جتنا بھی اچھا کام کریں یہ ممکن ہی نہیں کہ اس معاشرے مےں ایسے لوگ آپ کو نہ ملیںجو آپ کے کام مےںنقص نہ نکالیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا اور بنگلہ دیش،یہ تین بڑے ترقیاتی ممالک جہاں آج بھی ےہ سوال ہماری نوجوان نسل،جو آنے والے وقت مےں ہمارے ملک کا سرمایہ ہےں، سرے عام ان کی خواہشات کا گلہ گھوٹ رہا ہے۔کتنے خواب ہیں جو ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہےںاگر ہم اپنے ملک پاکستان کا موازنہ غیر ممالک سے کرےں تو وہاں کا ہر نوجوان خودمختار ہے جو وہ چاہتے ہیں وہ ہی کرتے ہیں،بغیر سوچے کہ مےرے والدین کیا کہیں گے؟ میرے پڑوسی کےا کہیں گے؟مےرے دوست احباب کےا کہیں گے؟جہاں ہم ہر شعبے مےں چاہے وہ صنعت و حرفت کا معالعہ ہو ےا علوم و فنون کا،ہر کام میں ہم ان کے شانہ بشانہ چلنے کے لےے تیار ہیںتو یہ سوچ کیوں ختم نہیں کرسکتے۔ جب آنے والی نوجوان نسل سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ ڈر ہے ےا خوف یا کوئی رواج ہے یا روایت جو ہر انسان کچھ کرنے سے پہلے کچھ بننے سے پہلے اسی سوال کے بارے مےں سوچتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اگر ڈر ہے تو سوال کا جو اب کیا ہے اور اس سوچ کو ختم کسے کیا جا سکتا ہے؟ اس پہ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ چیز معاشرے میں اےک مرض کی طرح بن کے رہ گئی ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر تھوڑا مشکل ہے اسکے لئے نوجوان یا آنے والی نسل یعنی بچوں کو نصاب مےں یہ چیز پڑھائی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی مےں اپنے لئے ،اپنے خاندان کے لئے اوراپنے ملک کے لئے بہتر سے بہترثابت ہوں۔جو آپ ہیں ہمیشہ وہ ہی رہےں بغیر لوگوں کی پرواہ کئے ہر وہ کام کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں کیوں کہ زندگی بہت چھوٹی ہے اگر لوگوں کے بارے مےں سوچتے رہینگے تو منزل کہی پیچھے چھوٹ جائے گی اور تنقید کرنے والے آگے بڑھ جائیں گے پھر کسی کے خوابوں کودفن کرنے ، چھوڑ دیں سوچنا کہ لوگ کےا کہیں گے ؟ وہ کہتے ہیں نا :
      کچھ تو لوگ کہیں گے،لوگوں کاکام ہے کہنا، 

   چھوڑو بےکار کی باتےں ،کہیں بیت نہ جائے رینا، 


Last warning: if u did not send it with proper file name, it will be rejected. See composing mistakes, these are same which i have pointed out in ur earlier piece. U mixed up  ے with ی. It matters when it is converted in word for web site and some times during editing create problem 
 Referred back

 ثناءشےخ
رول نمبر:۵۵
مےڈےا اےنڈ کمےونےکےشن
اےم اے (پرےوےس)
 فےچر
   لوگ کیا کہیں گے ﴾  لوگ کےا کہےنگے﴿ 

کہنے کو تو ےہ تےن الفاظ کا مجموعہ ہے۔مگر دےکھا جائے تو ےہ تےن الفاظ اور اےک سوال جو روز کہےں نہ کہےں کسی نہ کسی شخص کی زندگی ان کی خواہشات ،اور آرمانوں کو کچل رہا ہے ۔اےک اےسا سوال جہاں انسان کی ہر سوچ مفلوج ہوجاتی ہے ا نسان سوچتا بہت کچھ ہے مگر کرتا وہ ہی ہے جو عجےب الخلقت اس سے کروانہ چاہتی ہے مسئلہ چھوٹا ہو ےا بٹرا،رائے ذاتی ہو ےا سماجی ،پر سوال اےک ہی ”کےا کہےنگے لوگ“ آخر کےا کہےنگے لوگ ہم کےوں سوچتے ہےںانسان خود سے زےادہ کےوں لوگوں کے خےالات پرمبنی ہے ےقےنا آپ نے بھی بچپن مےں جب کبھی کوئی نےا کام کرنے کا ارادہ کےا ہوگا تو گھر سے ےہ جملہ ضرور سننے کو ملا ہوگا © © © © © © ”کہ لوگ دےکھےں تو کےا کہےنگے؟ ثقافت اور تہذےب کے نام پر کتنے ہی لوگوں کی زندگےوں کا فےصلہ سنا دےا جاےا ہے، کتنے ہی قصبے،گاﺅں،گوٹھ ہےںجہاں نہ لڑکی باہر پڑھنے جا سکتی ہے نہ اپنی مرضی سے اسے شادی کرنے کا کوئی حق ہے ۔آج بھی برادری اور ذات پات کے نظام نے ہزاروں لڑکےوں سے ان کے خواب ،ان کی آزادی چھےن لی ہے اور وجہ کےا ؟ صرف اےک سوال لوگ کےا کہےنگے؟
مےرے قصے مےں ےہ ہر اس کام کے لےے کہا جاتا تھا جو مےرے محلے مےں ےا تو نےا ہوتا ےا انوکھا © © © چاہے وہ قمےض شلوار کے بجائے پےنٹ شرٹ پہنے کی ہو ےا ہےرا سٹائل کو تبدےل کرنے سے لے کر اسٹےج پر پرفارمنس دےنے سے لےکر اپنی بہنوں کے ساتھ باہر گھومنے جانے © ،؛غر ض ہر اس کام کے متعلق جو باقی دنےا نہ کرتی ہو۔
خےر اےسے بے شمار کام کے لےے بھی، جن سے مجھ کو ڈراےا گےا کہ لوگ کےا کہےنگے لےکن اےسے بھی بےشمار کام تھے جو نہےںکر سکی ان لوگوں کے ڈر سے، اب افسوس اس لےے زےادہ ہوتا ہے کہ مجھے زندگی کے سارے سفر مےںوہ لوگ کہےں نہ ملے۔
ہمارا معاشرہ ےقےنا تبدےلی سے ڈرتا ہے، اب کونسی تبدےلی؟ ےہ الگ بحث ہے مگر ڈرتا ہے، اورہمےں وہ لوگ ڈراتے ہےں جو خود ہم سے ڈرتے ہےں اور ےہ چاہتے ہےںکہ ہم بھی انہےں کی طرح سوچےں۔صدےاں گزر گئی قدےم رواےتی معاشرہ آج مڈرن ہو گےا ہے مگر ےہ رواےت آج بھی سےنہ بہ سےنہ لوگوں کے ذہن کو ”کےا کہےنگے لوگ“ سے آگے بڑنے نہےں دےتی۔اےک رواج ہے جو زمانہ قدےم سے عمل مےں ہے۔اب سوشل مےڈےا کی ہی مثال لے لےں، ےہاں ہر شخص آپ کو اپنے خےالات اور سوچ فروخت کرنے کے چکر مےں ہے آپ اگر مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کرےں تو لوگ آپ کو طالبان سے جھوڑ لےتے ہےں،بلوچستان کے مسائل کی بات کرےں تولوگ آپ کو محب وطن سمجھنے سے کتراتے ہےں،ملالہ کی بات کرےں تو لوگ آپ کو اےجنٹ کہنے لگتے ہےں نہ جانے کتنی اور مثالےں ہےں۔تبدےلی لانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس تبدےلی کو عمل مےں لانے کی بات کوئی نہےں کرتا۔تنقےد کرنے والے تو بہت ہےں مگر سراہنے والے بہت کم ۔آپ جتنا بھی اچھا کام کریں ےہ ممکن ہی نہےں کہ اس معاشرے مےں اےسے لوگ آپ کو نہ ملےں جو آپ کے کام مےںنقص نہ نکالےں۔
سوچنے کی بات ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ انڈےا اور بنگلہ دےش،ےہ تےن بڑے ترقےاتی ممالک جہاں آج بھی ےہ سوال ہماری نوجوان نسل،جو آنے والے وقت مےں ہمارے ملک کا سرماےہ ہےں، سرے عام ان کی خواہشات کا گلہ گھوٹ رہا ہے۔کتنے خواب ہےں جو ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دےتے ہےںاگر ہم 
اپنے ملک پاکستان کا موازنہ غےر ممالک سے کرےں تو وہاں کا ہر نوجوان خودمختار ہے جو وہ چاہتے ہےں وہ ہی کرتے ہےں،بغےر سوچے کہ مےرے والدےن کےا کہےنگے؟ مےرے پڑوسی کےا کہےنگے؟مےرے دوست احباب کےا کہےنگے؟جہاں ہم ہر شعبے مےں چاہے وہ صنعت و حرفت کا معالعہ ہو ےا علوم و فنون کا،ہر کام مےں ہم ان کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لےے تےار ہےںتو ےہ سوچ کےوں ختم نہےں کرسکتے۔ جب آنے والی نوجوان نسل سے ےہ سوال کےا گےا کہ ےہ ڈر ہے ےا خوف ےہ کوئی رواج ہے ےا رواےت جو ہر انسان کچھ کرنے سے پہلے کچھ بننے سے پہلے اےسی سوال کے بارے مےں سوچتا ہے کہ لوگ کےا کہےنگے؟ اگر ڈر ہے تو سوال کا جو اب کےا ہے اور اس سوچ کو ختم کسے کےا جا سکتا ہے؟ اس پہ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ےہ چےز معاشرے مےں اےک مرض کی طرح بن کے رہ گئی ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر تھوڑا مشکل ہے اسکے لےے نوجوان ےا آنے والی نسل ےعنی بچوں کو نصاب مےں ےہ چےز پڑھائی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی مےں اپنے لےے ،اپنے خاندان کے لےے اوراپنے ملک کے لےے بہتر سے بہترثابت ہوں۔جو آپ ہےں ہمےشہ وہ ہی رہےں بغےر لوگوں کی پرواہ کےے ہر وہ کام کرے جو آپ کرنا چاہتے ہےں جو آپ بننا چاہتے ہےں کےوں کہ زندگی بہت چھوٹی ہے اگر لوگوں کے بارے مےں سوچتے رہےنگے تو منزل کہی پےچھے چھوٹ جائے گی اور تنقےد کرنے والے آگے بڑھ جائے گے پھر کسےی کے خوابوں کودفن کرنے ، چھوڑ دےں سوچنا کہ لوگ کےا کہےنگے ؟ وہ کہتے ہےں نہ :
      کچھ تو لوگ کہےنگے،لوگوں کاکام ہے کہنا، 
   چھوڑو بےکار کی باتےں ،کہی بےت نہ جائے رےنا، 

Wednesday, 2 March 2016

بے روزگاری کسی معذوری سے کم نہیں Sana Shaikh

Further Revised but sent in word. Plz next time try to send it in inpage format.
ثنا شیخ
رول نمبر
 Sana Shaikh   M.A Previous
Mass Communication

ے روزگاری تقریبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ہر معشیت میں کسی نہ کسی طور پر بیروزگاری کے حالات پائے جاتے ہیں ۔ بے روزگاری کے مسئلے میں زیادہ شدید صورت اس وقت اختیار کی جبکہ 1930ءکے عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہو گئی۔ ان دنوں میں صرف امریکہ میں کروڑوں آدمی بے روزگار ہو گئے۔ اسی طرح پوری دنیا غربت اور بے روزگاری کے جال میں پھنس گئی۔ بے روزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلا بناوٹی بے روزگاری میں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے میں سرمائے کی کمی ہو اس ملک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بے روزگاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسری موسمی بے روز گاری جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہیں یعنی برف اور شوگر ملز وغیرہ ان کے افراد بھی بعد میں بے روز گاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بے روز گاری ہے۔ یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بے روزگاری کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت میں پاور لومنر کا استعمال شروع ہوا تو دستی کھڈی کے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ۔ یوں موجودہ جدید دور میں آٹومیٹک مشینوں کے استعمال سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بے روز گاری شدید ترین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غیر پیداواری کاموں میں استعمال ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی ہے جو بیروزگاری میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔ قدرت نے ہمیں قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ اب ان کاصحیح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ چاہیں تو اپنی زمین سے سونا اگوا سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر افسوس اسی شعبے میں بیس سے پچیس فیصد بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ کیونکہ کم زمین پر زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ یوں بظاہر وہ لوگ کام تو کرتے ہیں مگر بے کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ چار ایکڑ زمین پر دو آدمی بھی کام کر سکتے ہیں۔ جہاں چار آدمی مصروف ہیں یوں دو آدمی مخفی بے روز گاری کا شکار ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہو رہی ہے۔ مثلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرہ جسکی وجہ سے لاکھوں غریب بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ اب ہر عام آدمی بھی بے روز گاری سے وقف ہے فیکٹریوں میں جدید مشینری کے استعمال سے آدمیوں کی ضرورت کم اور مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

یوں ہنر مند آدمی بھی بے روز گار ی کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ پڑھے لکھے افراد ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے سڑکوں پر خاک چھان رہیں ہیں مگر رشوت دینے کے لیے جیب گرم نہیں، سفارش کے لیے تعلقات نہیں ۔یوں مہنگائی کے دور میں تعلیم اور ہنر کی بھی قیمتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔

پرائیویٹ شعبوں میں بھی رشوت پہلے لی جاتی ہے جب جا کر 8000سے10000کی نوکری ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بھی تعلیم میں گریڈ دیکھے جاتے ہیں مگر تنخواہ میں 7500سے 8000تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ہیںاور یوں ایک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب یہ 8000میں سے ایک فرد بجلی کا بل 4000اور گیس کا بل 1000روپے ادا کرے تو وہکیسے باقی پورا مہینہ پیٹ کا دوزخ کو بھرے؟ اسکے باوجود اسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری ہے اگر وہ یہ بھی چھوڑ دیں تو اس مہنگائی کے دور میں ضروریات زندگی کیسے پوری کریں ۔

اور دوسری طرف سرکاری شعبہ جات، ان شعبوں میں نوکری تو ایک عام آ دمی کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے کیوں کہ یہاں سب سے زیادہ رشوت سفارش اور بے ایمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کے پاس سرمایہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لیے پہلے ہی مقرر کر دی جاتی ہیںخواہ ان میں قابلیت ہے یا نہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات میں نوکری کے اشتہارات دیے جاتے ہیں ۔

بے روز گاری کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔جو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوئے اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے دہشت گردی اور بے راہ روی جنم لیتی ہےں ۔ شایداسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں بے روزگاری کی بڑی وجہ انتظامیہ کی نا اہلی ہے کیوں کہ جس ملک کی زمین اتنی زرخیز ہو اور معدنیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی بھی معقول ہو وہاں روز گار کے مواقع پیدا کرنے کوئی مشکل نہیں ہوتے ضرورت صرف موثر منصوبہ بندی اور منظم طریقہ کار کی ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی بجلی جس میں تقریبا ایک عرب روپیہ اور موبائل فون کے بیلنس پر ہی صرف ایک دن کا ٹیکس عربوں روپے بن جاتا ہے اسکے علاوہ دیگر شعبوں سے بھی ٹیکس حاصل کئے جاتے ہیں اگر ان کا استعمال صحیح ہو جائے تو اس ملک میں بے روز گاری تو ایک طرف معاشرے میں غربت کا نام بھی غائب ہو جائے۔ لیکن افسوس ہمارے قومی خزانے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ ان میں جو بھی ڈالا جائے اضافے کی بجائے کمی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بین الااقوامی قرضے اٹھائے جاتے ہیں جن کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ کبھی ٹیکسوں میں اضافہ کر کے تو کبھی مہنگائی کے نام پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ۔ ان تمام خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہماری حکومت قرضوں پر انحصار کرتی ہے پاکستان میں پہلی بار قرضہ 1950ءمیں 57ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے لیا جبکہ 1958ءکو یہ قرضے حاصل کئے گئے یوں آج تک یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ مگر ہمارے شاندار حکمرانوں کے کارنامے دیکھ کر غیر ممالک نے بھی قرضوں سے انکاری کے لیے ٹھوس وجہ تلاش کر لی ہے۔ یوں آج پاکستان صرف ناکامی اور بے روزگاری کے علاوہ معاشی پسماندگی کا بھی شکار ہے۔ کیا اس ملک میں ایسا ایک بھی شخص نہیں بچا جو فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکے ابھی کچھ نہیں بگڑا میں اس ملک کو سنواروں گا؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی نہیں؟ ہمارے سارے حکمران صرف تماشا دیکھنے اور اپنے لیے سوچ رکھتے ہیں؟ کوئی شخص بھی نہیں جو اس سر زمین پاک کی خاطر کچھ کرے؟ اگر ہے تو سامنے آئے ملک کو اس وقت بہت ضرورت ہے سچے جذبے، مخلص رویے اور سچی لگن کی ۔جس کا مقصد صرف ملک کی بھلائی اور ترقی ہو اور ملک کو بے روزگاری کے اندھیروں سے نکال کر روزگار کے راہ پر ڈالناہو۔ جو اپنے بارے میں بعد میںسوچے پہلے ملک کے بارے میں سوچے ۔

Revised. U may see ur revised version how it looks like

کمپوزنگ کی بہت غلطیاں ہیں۔ایک نظر دیکھ لیتے تو یہ غلطیاں دور ہو سکتی تھیں۔ آپ نے ٹاپک کے لئے ایک پرکشش جملہ ” بیروزگاری کسی معذوری سے کم نہیں “ تو لکھ دیا لیکن اس آرٹیکل میں یہ جملہ جسٹیفائی بھی کرو۔

ثنا شےخ ۔۔۔۔۔ اےم اے(پرےوےس) ۔۔۔۔۔ رول نمبر 55
میڈےا اےنڈ کمیونےکشن اسٹڈیز


ارٹےکل
      بیروزگاری کسی معذوری سے کم نہےں
بے روز گاری تقرےبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ہر معےشت مےں کسی نہ کسی طور پر بےروزگاری کے حالات پائے جاتے ہےں ۔بےروزگاری کے مسئلے مےن زیادہ شدید صورت اس وقت اختےار کی جبکہ ۰۳۹۱ ع کہ عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہوگئی ۔ اس کا شکار ہوگئی ۔ ان دونو ں میں صرف آمرےکہ مےں کروڑوں ٓدمی بےروزگار ہوگئے۔ اسی طرح پوری دنےا غربت اور بےروزگاری کہ حال میں پھنس گئی ۔

بےروزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہےں مثلا بناوٹی بےروزگاری مےں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے مےںسرمائے کی کمی ہو اس ملک مےں آبادی کہ بڑہتے ہوےرجحان کہ مطابق سرمائے مےں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بےروزگاری کا شکار ہوجاتے ہےں۔
دوسرے موسمی بےروزگار ی جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہےں یعنی برف اور شگر ملز وغےرہ ان کارخانوں میں کام کرنے والے مسوم ختم ہونے کے بعد بےروزگاری کا شکار ہوجاتے ہےں ۔

تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بےروزگاری ہے یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بےروزگاری کی باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت مےں پاورلومنر کا استعمال شرہع ہوا دستی کھڈے کے لاکھوں مزدور بےروزگار ہوگئے یوں موجودہ دور مےں اٹومےٹک مشےنوں کا استعمال سے بےروزگاری میں شدےد ترےن مسئلے کی صورت اختےار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غےر ضروری وسائل کا غےر پےداواری کاموں مےں استعمال ہے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان کس چعز کہ کمی ھے جو بےروزگاری معں دن دگنی رات چگنی ترقی ھورھی ہے قدرت نے ہمےں قدرتی وسائل سے نوازا ہے اب ان کا صحےح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ معں ہے چاھےں تو اس زمےن سے سونا اگوا سکتے ہےں ۔

بنےادی طہر پر پاکستان زرعی ملک ھے مگر افسوس اسی شعبے مےں بےس سے پچےس فیصد بےروزگاری جنم لےتی ہے کےونکہ کم زمےن پر زےادہ افراد کام کرتے ہےں یوں بظاھر وہ لوگ کام تو کرتے ہےن مگر بےکار ھوتے ہےن کےونکہ چاراےکڑ زمےن پہ دو آدمی ہی کام کرسکتے ہےں جھاں چار آدمی مصروف ھےں وہاں دو آدمی بےروزگاری کا شکار ہےں ۔ جدےد ٹےکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہورھی ہے مچلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرھ جسکی وجہ سے لاکھون غرےب بےروزگاری کا شکار ہوتے ہےں اب ہر عام آدمی بھی بےروزگاری سے واقف ھے فعکٹرےون مےں جدید مشنےں استعمال سے آدمےوں کی ضرورت کم مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رھی ہے۔

ےوں ہنر مند آدمی بھی بےروزگاری کے چنگل مےن پھنس گےا ہے پڑھے لکھے افراد ہاتھون مےں ڈگرےان اتھائے سڑکوں پر شاک چھانرھے ہےں مگر رشوت دعنے کے لئے جےب گرم نھےں سفارش کے لئے تعلقات نھےں ، ےوں تعلےم وار ہنر کی بھی قےمتےں مقرر کر دےگئی ہےں ۔

پرائےوٹ شعبوں مےں بھی رشوت پھلے لی جاتی ہے تب جاکر ۰۰۰۸ سے ۰۰۰۰۱ کی نوکری ہاتھ آتی ہے ۔ ےھاں بھی تعلےم مےں گرےڈ دےکھےں جاتے ھےں مگر تنضواہ ۰۰۵۷ سے ۰۰۰۸ تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ھےن اور ےوں اےک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب آپ ےہ ۰۰۰۸ مےں سے اےک افراد بجلی کا بل ۰۰۰۴ اور گےس کا بل ۰۰۰۱ روپے ادا کرے تو وہ کےسے باقی پورا مھینہ پےٹ کہ دوزض کو بھرے ؟ اسکے باوجود اسی پرائےوٹ ادارے مےں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے وجہ صرف بےروزگاری ہے اگر وہ ےہ بھی چھوڑ دےں تو اس مھنگائی کے دور مےں ضرورےات زندگی کےسے پوری کرےں۔

اور دوسری چرف سرکاری شعبہ جات ،ان شعبوں مےں نوکری تو اےک عام آدمی کے خواب و خےال سے بھی باھر ہے کےونکے ےھاں سب سے زےادہ رشوت سفارش اور بے اےمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کہ پاس سرماےہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لئے پھلے ہی مقرر کر دی جاتی ہےں ان مےں قابل؛ےت ہے ےا نھےں ا سبا تسے کئی سروکار نھےں ہوتا اس کے لبعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات دےجاتے ہےں۔

نےروزگاری کئی معاشرتی بےماریوں کوجنم دےتی ہےجو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوے اور مھنگائی کے ھاتھوں تنگ آکر گعر قانونی کاموں مےں ملوث ہوجاتے ہےں اس لئے دھشتگردی اور بے راہ روی جنم لےتی ہے شاےد اسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئیبھی انسان پےدائیشی مجرم نھےں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کہ زمےدارہوتے ہےں۔

اگر دےکھا جائے تو بےروزگاری جےسے مسئلے کو ہمارے حکمران سنجےدگی سے لےں تو حل ہسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی زمےن بھت ذرخےز ہے اور معدنےات بھی موجود ھے تو با آسانی کہ ساتھ روزگار کہ وسائل پےدا کئے جاسکتے ہےں عام جو ٹےکس دےتی ہے اس مےں سب سے بڑا بجلی پھر گےس اور موبائےل فون کاتو اےک دن کا عربوں رپے ہوجاتا ہے مگر جاتا کہاں ہے ؟ اگر ان ٹےکس کا استعمال سحےح جگہ کےا جائے تو بےروزگاری کو ماضی کاقصہ بننے مےں دےر نھیں لگے گی چلو ٹےکس بھی عوام کے کندھے پہ پر بے وجہ جو بےناالقوامی اپنے خزانے کو وصےع بنانے کہ خاچر قرضے پقرضہ اٹھائے جارھی ہے وہ بھی عام کے کندھوں پر؟

پاکستان کی تارعخ مےں پھلا قرض ۰۵۹۱ مےں لےا گےا تھا جس کا وصول ۸۵۹۱ مےں ہوا مگر اس کہ بعد ےہ سلسلہ جاری ہے اور ےہ صورتحال دےکھ کر بےرونی ممالک نے قرضا دےنا ہی بند کر دےا ۔

ھمارے ملک کو اچھے حکمرانوں کی ضرورت ھے جو ذاتی کاموں کو بعد مےں اور جن کا قسم نامہ اٹھاےا ھے کے ملکی کاموں کو پھلے ترجےع دےں گے۔ ایسا صرف تصور ہی کےا جاسکتا ہے جبکہ حقےقت مےں اس خےال کی تبدےلع بھت دور کی بات ہے۔ ھمارے حکمرانوں کو چاھئے کہ اس پاک سرزمےن کہ خاچر کچھ کرےں اور بےروزگاروں کو پاکستان مےں ہی موجود وسےلات کو استعمال کر کہ روزگار فراھم کےا جا ´ئے تاکہ ان کی دعاﺅںمےں وہ سکون و چےن کی نیند سو سکےں۔


For printing in Rshni we need write-ups in inpage format/ Last para needs more division

ثنا شیخ

رول نمبر:55  
آرٹیکل


بے روزگاری کسی معذوری سے کم نہیں


بے روزگاری تقریبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ہر معشیت میں کسی نہ کسی طور پر بیروزگاری کے حالات پائے جاتے ہیں ۔ بے روزگاری کے مسئلے میں زیادہ شدید صورت اس وقت اختیار کی جبکہ 1930ءکے عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہو گئی۔ ان دنوں میں صرف امریکہ میں کروڑوں آدمی بے روزگار ہو گئے۔ اسی طرح پوری دنیا غربت اور بے روزگاری کے جال میں پھنس گئی۔ بے روزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلا بناوٹی بے روزگاری میں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے میں سرمائے کی کمی ہو اس ملک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بے روزگاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسری موسمی بے روز گاری جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہیں یعنی برف اور شوگر ملز وغیرہ ان کے افراد بھی بعد میں بے روز گاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بے روز گاری ہے۔ یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بے روزگاری کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت میں پاور لومنر کا استعمال شروع ہوا تو دستی کھڈی کے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ۔ یوں موجودہ جدید دور میں آٹومیٹک مشینوں کے استعمال سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بے روز گاری شدید ترین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غیر پیداواری کاموں میں استعمال ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی ہے جو بیروزگاری میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔ قدرت نے ہمیں قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ اب ان کاصحیح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ چاہیں تو اپنی زمین سے سونا اگوا سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر افسوس اسی شعبے میں بیس سے پچیس فیصد بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ کیونکہ کم زمین پر زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ یوں بظاہر وہ لوگ کام تو کرتے ہیں مگر بے کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ چار ایکڑ زمین پر دو آدمی بھی کام کر سکتے ہیں۔ جہاں چار آدمی مصروف ہیں یوں دو آدمی مخفی بے روز گاری کا شکار ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہو رہی ہے۔ مثلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرہ جسکی وجہ سے لاکھوں غریب بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ اب ہر عام آدمی بھی بے روز گاری سے وقف ہے فیکٹریوں میں جدید مشینری کے استعمال سے آدمیوں کی ضرورت کم اور مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ 

یوں ہنر مند آدمی بھی بے روز گار ی کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ پڑھے لکھے افراد ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے سڑکوں پر خاک چھان رہیں ہیں مگر رشوت دینے کے لیے جیب گرم نہیں، سفارش کے لیے تعلقات نہیں ۔یوں مہنگائی کے دور میں تعلیم اور ہنر کی بھی قیمتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔

پرائیویٹ شعبوں میں بھی رشوت پہلے لی جاتی ہے جب جا کر 8000سے10000کی نوکری ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بھی تعلیم میں گریڈ دیکھے جاتے ہیں مگر تنخواہ میں 7500سے 8000تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ہیںاور یوں ایک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب یہ 8000میں سے ایک فرد بجلی کا بل 4000اور گیس کا بل 1000روپے ادا کرے تو وہکیسے باقی پورا مہینہ پیٹ کا دوزخ کو بھرے؟ اسکے باوجود اسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری ہے اگر وہ یہ بھی چھوڑ دیں تو اس مہنگائی کے دور میں ضروریات زندگی کیسے پوری کریں ۔

اور دوسری طرف سرکاری شعبہ جات، ان شعبوں میں نوکری تو ایک عام آ دمی کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے کیوں کہ یہاں سب سے زیادہ رشوت سفارش اور بے ایمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کے پاس سرمایہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لیے پہلے ہی مقرر کر دی جاتی ہیںخواہ ان میں قابلیت ہے یا نہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات میں نوکری کے اشتہارات دیے جاتے ہیں ۔ 

بے روز گاری کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔جو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوئے اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے دہشت گردی اور بے راہ روی جنم لیتی ہےں ۔ شایداسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ 

پاکستان میں بے روزگاری کی بڑی وجہ انتظامیہ کی نا اہلی ہے کیوں کہ جس ملک کی زمین اتنی زرخیز ہو اور معدنیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی بھی معقول ہو وہاں روز گار کے مواقع پیدا کرنے کوئی مشکل نہیں ہوتے ضرورت صرف موثر منصوبہ بندی اور منظم طریقہ کار کی ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی بجلی جس میں تقریبا ایک عرب روپیہ اور موبائل فون کے بیلنس پر ہی صرف ایک دن کا ٹیکس عربوں روپے بن جاتا ہے اسکے علاوہ دیگر شعبوں سے بھی ٹیکس حاصل کئے جاتے ہیں اگر ان کا استعمال صحیح ہو جائے تو اس ملک میں بے روز گاری تو ایک طرف معاشرے میں غربت کا نام بھی غائب ہو جائے۔ لیکن افسوس ہمارے قومی خزانے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ ان میں جو بھی ڈالا جائے اضافے کی بجائے کمی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بین الااقوامی قرضے اٹھائے جاتے ہیں جن کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ کبھی ٹیکسوں میں اضافہ کر کے تو کبھی مہنگائی کے نام پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ۔ ان تمام خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہماری حکومت قرضوں پر انحصار کرتی ہے پاکستان میں پہلی بار قرضہ 1950ءمیں 57ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے لیا جبکہ 1958ءکو یہ قرضے حاصل کئے گئے یوں آج تک یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ مگر ہمارے شاندار حکمرانوں کے کارنامے دیکھ کر غیر ممالک نے بھی قرضوں سے انکاری کے لیے ٹھوس وجہ تلاش کر لی ہے۔ یوں آج پاکستان صرف ناکامی اور بے روزگاری کے علاوہ معاشی پسماندگی کا بھی شکار ہے۔ کیا اس ملک میں ایسا ایک بھی شخص نہیں بچا جو فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکے ابھی کچھ نہیں بگڑا میں اس ملک کو سنواروں گا؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی نہیں؟ ہمارے سارے حکمران صرف تماشا دیکھنے اور اپنے لیے سوچ رکھتے ہیں؟ کوئی شخص بھی نہیں جو اس سر زمین پاک کی خاطر کچھ کرے؟ اگر ہے تو سامنے آئے ملک کو اس وقت بہت ضرورت ہے سچے جذبے، مخلص رویے اور سچی لگن کی ۔جس کا مقصد صرف ملک کی بھلائی اور ترقی ہو اور ملک کو بے روزگاری کے اندھیروں سے نکال کر روزگار کے راہ پر ڈالناہو۔ جو اپنے بارے میں بعد میںسوچے پہلے ملک کے بارے میں سوچے 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

Friday, 12 February 2016

Interview with Dr Nabi Bux Narejo

foto is required. There are some spelling and composing mistakes
Interview with Dr Nabi Bux Narejo
ثناء شیخ
ماس کمیونیکیشن
رول نمبر:55
کلاس:M.A Previous 
      انٹرویو     
                 نبی بخش ناریجو 

 ڈاکٹر نبی بخش ناریجو چیئرمین آف شعبہ کرمنا لوجی یونیورسٹی آف سندھ ہیں۔ آپ سندھ کرمنالوی میں ڈکٹریٹ کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ ان کی پیدائش کی 1970کوہوئی، انہیں گانہ گانے، موسیقی، صوفی ازم اور شاعری کا بہت شوق ہے، ان کا
مننا ہے کہ ہم کرائم کو صوفی ازم سے کم کےا جا سکتا ہے۔

سوال:آپ کا مننا ہے کہ کرائم کو صوفی ازم سے کم کےا جاسکتا ہے لیکن کیسے ؟
جواب:صوفی ازم یک فلوسوفی آف پیس ہے ایک ٹولرینس ہے سندھ بنےادی طور پر صوفیوں کی زمین رہی ہے۔ صوفی ازم ایک میتھڈ نہیں بلکہ ایک چینل ہے میں سمجھ تا ہوںکہ پوزیٹیوٹی صوفی ازم وہ صوفی ازم نہیں جوکہ ہمیں مزارات سے ملتا ہے بلکہ وہ صوفی ازم جو ہمیں شاہ عنایت اور شاہ عبدللطیف کی شاعری سے ملتا ہے اُس سے ہم لوگوں کو دلی سکون دے کر کرائم کو ختم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔

سوال:آپ کےا سمجھتے ہیں کہ کےا کرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اگر ہو رہا ہے تو کیسے؟
جواب:آبادی بڑھ رہی ہے ۔ادارے جن کو کام کرنا چاہیے جیساکہ پولیس ،کرمنل جسٹس وہ کام کرتے نہیں ہےں۔ہمارے یہاں مین پاور اُن کو نہیں ہے جن کے پاس ایڈوانس نالیج ہو۔ہمارے یہاںکی پولیس کو نالیج تو ہے مگر ایڈوانس نالیج نہیں ہے ہمارے یہاں کے ھیڈ کانسٹیبل ایڈوانس کرائم کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ تعلیم بہت لازمی ہے آج کل کے کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے

سوال:آپ کے خیال سے اِیسے کون سے عملی اقدامات کرنے چاہیے جو کرئم کو روکنے کا سبب بنے ؟
جواب:سب سے پہلے ہمیں ریسرچ اور ڈیٹا کلیکٹر میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مواقع دینے چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو بتائے کے کے صحیح ہے اورکےا غلط اور ان کو فنڈنگ بھی دی جائے تاکہ وہ لوگوں میں بلکہ خاص طور پر گاوں گوٹھ میں جاکر سیمینار کرواے جس سے لوگوں میں شعور پیدا ہو اور ماں باپ کو چائیے کے اپنے بچوں کے سامنے ایسی زبان کا انتخاب نہ کرے ۔جن سے اُن پر غلط اثر پڑے۔اور میرا پرپوزل یہ ہے کے پولیس کو پرایویٹایئز کرنا چاہیے۔اور جب بھی ایف آئی آر درج کی جائے تب ایک جرنالجسٹ ایک کرمنالوجسٹ کو ساتھ بیٹھا کر پھر ہی آف ائی ار لونچ کی جائے ایکایس ایچ وت کو اس بات کا پاور نہیں ہو کے وہ ایف آئی آر درج کر سکے ۔ 

سوال: طلبہ میں کرمنا لوجی کے رجحان کو کس طرح سے بڑھا ےا جاسکتا ہے؟
جواب: طلبہ میں کرمنا لوجی کا رجحان کافی نہیں بلکہ بہت بڑھ چکا ہے اگر رجحان بڑھانا ہے تو وہ گوارنمنٹ کا رجحان بڑھانا چاہیے جس نے بلکل ہی کرمنا لوجی کو اندیکھا کر دےا ہے گوانمنٹ کو چاہیے کے اس ادارے پر خاص توجہ دی تاکہ اس کو مزید بہتر بناےا جا سکے ۔

سوال: قانون بھی ہے سزابھی ہے پھر بھی جرم ہو رہا ہے؟

سوال:کرمنالوجی میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے آخر اس کی کےا وجہ ہے؟
جواب:جب کرمنا لوجی اسٹارٹ ہوا تھا تو لڑکےا ں بہت دری ہوئی تھی کہ پتا نہیں کےا ہے کرمنا لوجی شاید ہمیں ٹیراریزم پڑھائے گے پتا نہیں کےا ہوگا لیکن ماشااللہ اب لڑکےوں میں آہستہ آہستہ آگاہی بڑھ رہی ہے تو لڑکیاں بھی کا فی انٹراسٹیڈ ہےں۔ لیکن اب ہمارے یہاں 25کا ریشو ہے ۔

سوال:کرمنا لوجی کے شعبہ میں آپ کیسے تبدیلیاں چاہتے ہےں؟
جواب:ہمارے اس شعبہ میں نہ تو کرسیاں ہے اور نہ ہی کلاس روم ہے ہمارے یہاں فائنل ایئر کی کلاس کلارک افیس میں لی جاتی ہے اور تو اور ہمارے پاس اپنی نہ تو سیمینار لائبریری ہے اور نہ ہی فورنسک لیب ہے یہ سب چیزعں کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ 

سوال:کرمنا لوجی میں میڈیا کا کےا رول ہے؟
جواب:دیکھے ہمارا اور میڈےا کا تقریبن سیم ہی کام ہے میڈےا پرسن ہمارا اسوسییٹ ہے۔ہمارا کام ہے کے کرئم کو انویسٹیگیٹ کلیکٹ کرنا اور پروفائیل بنانا ہے لکن ایک جرنالسٹ کاکام ہے کرئم کو اور کرئم کی تفصیلات کو عوام تک پہچاناہے ۔اور میں یہ سمجھتا ہو کہ یہ دونوں ہی معاشرہ کا ایک اہم پہلو ہیں۔

سوال : کےاکرئم کے خاتمے کا حل کےا صرف سزا موت ہے؟
جواب:بلکل نہیں ۔ایک کرمنالوجسٹ ایک جرنالسٹ اور حکومت کے لا میکر کے ساتھ مل کر بیٹھنا چاہیے اور ایسا ایک پلان تشکیل دینا چائیے جس سے ان کو دماغی طور پر ٹرینڈ کر کہ انھیں بھی سوسایٹی کا حصہ بننا چایئے۔

سوال:بے روزگاری بڑھتے ہوئے کرائم کی وجہ ہے اگر ہے تو کیوں ہے؟
جواب: جی ہاں بلکل بڑھتی ہو ئی بےروزگار ی کرا ئم کو تقویت دے رہی ہے ۔ بیروزگاری کو ختم کرے کرائم اپنے اپ ختم ہوجائے گا۔ 

 سوال:پاکستان میں کرمنا لوجی کا کےا اسکوپ ہے؟
جواب: دنیاں میں اگر کہی خون ہوتا ہے تو ایک کرمنا لوجسٹ کا ہی کام ہے کہ وہ اس کے ہر ایک اہم پہلوں پر روشنی ڈالے جو کے انصاف کی فرہامی میں آسانی کاباعث بنتے ہےںلیکن اگر ہمارے ملک میں کہی خوں ہوجائے تو ایک پولیس والا ہی اس سارے معملا کو اسڑیڈی کرتاہے جو کہ ان سب کے لئے تےار نہیں ہوتا تو لہاذا کیس کے مختلف پھلوں رہے جاتے ہےں جس کی وجہ سے نہ جانے کیتنے لوگ انصاف سے محروم ہوجاتے ہےں۔

سوال:کرمنا لوجی کا سوسائٹی پر کےا اثرپڑتا ہے؟ 
جواب:سوسائٹی ہمیں بہت چاہتی ہے ہماری بہت عزت کرتی ہے لکین افسوس ہے کہ گوارنمیٹ ہمیں بہت نیگلیکٹ کرتی ہے جس بات کا دکھ بھی ہے ہمیں۔

سوال:آپ پاکستان کی ےوتھ کو کرمنا لوجی کے حوالے سے کےا پیغام دینا چاہتے ہےں ؟
جواب :ےوتھ کو میں یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا وقت زایانہ کرے دوستوں کہ ساتھ بیٹھنا ٹائم پاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا آپ تعلیم میں ماسٹر جائے ہو ئے معاشرہ آپ کو خود ہی اہمیت دی گااور اگر اپ کے پاس ماسٹر نالیج نہیں تو پھر بے کار ہے سب چیزے آپ کی لئے بھی اور آپ کے معاشرہ کے لئے بھی۔ 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro