Showing posts with label انٹرویو. Show all posts
Showing posts with label انٹرویو. Show all posts

Saturday, 13 February 2016

Saeeda Shams Interview by Mehnaz Sabir

Do not put question number on questions. 
 foto is needed. No mention of her educational qualification. 
 U can see how English words have disturbed the format. avoid to use English words 

Saeeda Shams Interview by Mehnaz Sabir Roll no :- 2k16/MMC / 36 (Preious0)

 انٹرویو 
 مہناز صابر
سعیدہ شمس الدین سے انٹرویو بطور تعلیمی ماہر
تعارف :۔
 لطیف آباد کی رہائشی مسز سعیدہ شمس الدین ایک پرائیوٹ اسکول اور کالج کی مالک ہیں۔ وہ گزشتہ 39سال سے کامیا بی کے ساتھ اسکول چلا رہی ہیں۔ ان کے شوہر اور بچے بھی اسکول کا نظام سنبھا لنے میں انکا ساتھ دیتے ہیں ۔ان کے اسکول میں تقریبا 1500شاگرد اور 90سے زیا دہ اساتذہ ہیں۔ ان سے یہ انٹرویو بطور ایک ایجو کیشن ایکسپرٹ کے لیا گیا ۔

سوال: آپ نے پرائیوٹ اسکول ہی کیو ں کھولا ؟
جواب : کیونکہ گو رنمنٹ اسکول میں تعلیم کا معیا رزیا دہ اچھا نہیں ہے میں اپنی قوم کے بچوں کو اچھے معیار دینا چاہتی تھی تا کہ وہ زندگی میں اپنا مقصد حاصل کر سکیں ۔

سوال: پرا ئیوٹ اسکول والوں نے تعلیم کو کا روبار بنا یا ہوا ہے ؟
جواب: یہ بات کسی حد تک صحیح ہے مگر تعلیم دینا ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے جس میں سچائی اور ایمانداری کی ضرورت ہے اسکو کاروبار بنا نا غلط ہے کچھ ادارے ایسا کر رہے ہیں پھر وہا ں تعلیم نہیں کمائی ہو تی ہے مگر ہمارے ادارے میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔

سوال نمبر 3 بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لئے آپ ٹیچر کی قا بلیت کا کس طرح اندازہ کر تے ہیں ؟
جواب میں ٹیچر کا تعلیمی ریکا رڈ دیکھتی ہو ں اسکی Skillsپر فوکس کر تی ہوں کلاس میں اسکے پڑھانے کا طریقہ دیکھتی ہو ں اور اسکے علا وہ یہ کہ وہ بچوں کی پرابلمز کو کس طرح دل کر ے ہیں ۔

سوال نمبر 4 بچوں کی اچھی تر بیت میں آپکے اسکول کا کتنا حصہ ہے ؟
جواب میں صبح اسکول اسمبلی سے ہی بچوں پر نظر رکھتی ہو ں اور ٹیچرز کو بھی اس بات کی تر بیت دیتی ہوں کہ بچوں کو نصاب کی تعلیم کے ساتھ اچھا انسان بنے کی تعلیم دیں تمیز بھی سکھائیں میں خود بھی بچوں کو آفس میں بلا کر سمجھا تی ہو ں میرے خیا ل سے بچوں کا اخلاقی معیا ر بلند کر نے میں ہمارا کر دار اچھا ہے ۔

سوال نمبر 5 آپ کون سا نصاب پڑھا رہے ہیں ؟
جواب ہم مختلف نصاب پڑھا تے ہیں سندھ ٹیکسٹ کا بھی ہے Oxford کا بھی ہے اور دوسرے پبلشرز کابھی جو کتابیں تعلیمی معیار میں بھی اچھی ہو ں اور بچوں کی سمجھ میں بھی آئے مختلف Levelsمیں ہم نے اچھا نصاب رکھا ہے ۔


سوال نمبر 6 آج کل انگلش کا crazeکیوں ہے ؟جبکہ بچہ اپنی مادری زبان میں زیا دہ اچھا پڑھ سکتا ہے ؟
جواب یہ با ت صحیح ہے کہ بچے ما دری زبان میں زیا دہ اچھا سیکھتے ہیں لیکن مستقبل میں انکو انگلش کا سامنا کر نا ہے اس لئے شروع سے اگر انگلش ہو گی تو آگے جا کے انھیں مشکلات کا سامنا نہیں کر نا پڑے گا ۔

سوال نمبر 7 آپ کے پاس زیا دہ تر کس back groundکے بچے آتے ہیں ؟
جواب زیا دہ تر middle classکے بچے ہیں کچھ upperاور power classکے ہیں کیونکہ فیس منا سب ہے تعلیم کا معیا راچھا ہے اس لئے پر کلاس کے بچے ہیں ۔

سوال نمبر 8 جدید تعلیم کے لحاظ سے آپ شاگر دوں کو کس چرح تر بیت دے رہے ہیں ؟
جواب جدید تعلیم کے لئے کمپیوٹر اور انگلش پر زیا دہ توجہ دے رہے ہیں ۔

سوال نمبر 9 کو ئی ایسا طریقہ جس سے ہم سیکھنے کے عمل کو بہرت بنا سکیں ؟
جواب بس سچائی اور نیک نیتی سے کا م کریں تعلیم کاروبار نہ بنا ئیں اپنا فرض سمجھ کر تعلیم دین اور لالچ سے بچیں انشا ءاﷲ نظام بہتر ہو گا ۔

سوال : کیاآپکے اسکول اور کالج کے شاگر دوں کی بورڈ میں پو زیشن ااتی ہے ؟
جواب بچے پو زیشن لیتے ہیں اوربا قی سب بچوں کا رزلٹ بہت اچھا آتا ہے ۔

سوال نمبر 11 لڑکیوں کی تعلیم سو سائٹی میں کیا اہمیت ہے ؟
جواب ہر پڑھنا لکھا اور عاقل شخص ہی کہے گا کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانا بہت ضروری ہے کیونکہ بڑی ہو کر لڑکی نے ہی گھر چلانا ہے اور معاشرہ بنانا ہے ۔

سوال نمبر 12 بے شمار بچے تعلیم سے محروم ہیں آپکے خیا ل میں کیا اقدامات کرنے چا ہیں کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے 
جواب میرے اسکول کھولنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر کلاس کے بچے کو تعلیم دوں آپ نے دیکھا ہو گا ہمارے یہاں بہت سارے غریب بچے بھی پڑھ رہے ہیں اور ہم انھیں مفت تعلیم دے رہے ہیں اسی طرح اگر سب لوگ سوچیں توہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے گا ۔

سوال نمبر 13 آپکے اسکول میں کون کون سی غیر نصابی سر گر میاں ہو تی ہیں ؟
جواب ہمارے اسکول میں گیم کے پریڈ ہو تے ہیں اسکے علاوہ ہم بچوں کو سر گرم رکھنے کے لئے تقریری اور شعرو شا عری کے مقابلے کر واتے ہیں ۔

سوال نمبر 14 والدین کے ساتھ آپ کس طرح رابطے میں رہتے ہیں ؟
جواب ہم ہر بچے مہینے والدین کو بلاتے ہیں اور بچے کی پرفارمنس بتا تے ہیں اگر کبھی ضرورت پڑ جا تی ہے تو انھیں فون کر کے بتا دیتے ہیں ۔

سوال نمبر 15 کو ئی ایسا پیغام جو آپ بچوں ،نو جوانوں اور ٹیچرز کو دینا چا ہیں ؟
جواب میں سب کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ ہر کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں اپنے مقصد کو حاصل کر نےکے لئے محنت اور لگن سے کام کر یں اپنے دل سے نفرت اور حسد کو نکال کرآگے بڑھیں ۔

اختتامیہ :۔
میں نے مسز سعیدہ شمس الدین کا انٹر ویو ایک ایجوکیشن ایکسپر ٹ کے طور پر اس لئے لیا ہے کیونکہ آج کل لو گوں نے کمائی کے لئے اسکول بہت کھولے ہو ئے ہیں لیکن تعلیم کا معیار بہت خراب ہے لہذا روشنا س کر وانا چا ہتی ہوں 
  Mehnaz Sabir
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

Interview with Dr Haroon Memon by Wasique Memon

Revised
Interview with Dr Haroon Memon by Wasique Memon
It is bit long. Composing mistakes as u used ے instead of ی 

when it is converted  for web site this mistake appears. U can see on web site it is not readable. 
       ڈاکٹر محمد ہارون میمن سے انٹرویو    

     انٹرویو : واثق احمد میمن
 ایم اے(previous) رول نمبر 70 
 پروفائل
 ڈاکٹر محمد ھارون میمن 1962 ءمیں بدین شہر میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول بدین اور گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری سائنس کالج بدین سے انٹر کرنے کے بعد لےاقت ےونےورسٹی آف مےڈےکل اےنڈ ہےلتھ سائنس جامشورو سے1988ءمےں اےم بی بی اےس کیڈگری حاصل کرنے کے بعد4 199 ءمےں ڈی سی پی (DCP)کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بحےثےت سینئر پیتھالاجسٹ سول ہسپتال بدین میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہےں شروع سے ہی عوامی خدمت کا جذبہ آپ کے اندر موجود تھا جسے بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں تےزی سے پھلنے والی جان لےوا بےماری تھےلےسمےا کی روک تھام کے لئے آپ کی کوششوں سے 20 جون 2005ءمیں تھےلےسما کےئر سےنٹر بدین کا اپنی مدد آپ کے تحت بنےاد رکھا تھےلےسمےا کےئر سےنٹر بدین کا شمار ملک بھر مےں قائم 7 بڑے سےنٹروں مےں ہوتا ہے اس سےنٹرکی عمارت کا بنےاد 20 جون 2005 کورکھا گےا جس کاافتتاح اس وقت کے امرےکی اےمبےسڈر Mr Ryan c.crocker نے کےا سےنٹر کے بانی ڈاکٹر محمد ھارون مےمن سے تھےلےسمیا کے علاج اور کی روک تھام کے حوالے سے ہونے والی گفتگو قارئےن کے لئے پےش خدمت ہے

سوال: آپ کو تھےلےسمےا کی روک تھام کے لئے ےہ سےنٹر قائم کرنے کا خےال کےو آےا؟
جواب: مےں جب سول اسپتال بدین مےں بطورسےنئر پتھالوجسٹ مقرر ہوا تو مےرے پاس آنے والے خاص طور پر بچے اسی بےماری مےں مبتلا ہوتے تھے جن کا مستقل طور پر علاج ہونے اور اس بےماری کو روکنے کے لےئے حکومتی سطح پر کوئی بھی بندوبست نہےں تھا اور اس کا علاج اور ٹےسٹوں پر بھاری خرچہ ہونے کی وجہ سے مرےضوں کی اکثرےت وہ خرچہ برداشت نہےں کرسکتے تھے جو کے زےادہ تر بچوں کی اموات سبب تھا مےں نے اپنے چند مخےر دوستوں کی مدد سے اس بےماری مےں مبتلا غرےب مرےضوں اور بچوں کو مطلوب طبی مدد فراہم کرنے اور اس بےماری کی روک تھام کے لےئے یہ ادارہ قائم کےا۔

سوال:اتنے بڑے ادارے کو چلانے کے لےئے اخراجات کا بندوبست کےسے کرتے ہےں؟
جواب: اس ادارے کو چلانے کے لےئے ہم نے سوسائٹی فار کےئر آف تھےلےسمےا پےشنٹ(society for care of thalessmeamia patients ) بدےن قائم کی اس مےں مقامی طور پر مخےر حضرات کو اس سوسائٹی مےں شامل کےا گےا ان کی مالی مدد سے ادارے کے اخراجات چلائے جاتے تھے اور پھر ہمارے اس سےنٹر سے سندھ کے 8 اضلاع کے مرےض اور بچے مستفےد ہونے لگے اور کچھ با اثر اور صاحب حےثےت لوگوں کے بچے جو اس بےماری مےں مبتلا تھے ان کو بھی ہمارے اس ادارے سے proper treatment ملنی شروع ہوئی جس مےں اس وقت کے بدین کے ضلع ناضم کی بچی بھی شامل تھی اور اس ضلع ناضم نے پہلی مرتبہ ضلع حکومت بدین کی جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ اس ادارے کے لےئے مختص کی جو کہ اب سندھ حکومت کی جانب سے ملتی ہے ۔

سوال: تھےلےسمےا کےا ہے؟
جواب:تھےلےسمےا اےک موروثی بےماری ہے جو کہ والدےن سے بچو مےں منتقل ہوتی ہے تھلےسمےا خون کی اےک ایسی بےماری ہے جو نسل در نسل بچو مےں منتقل ہوتی ہے ۔

سوال:تھلےسمےا بڑھنے کے اسباب کےا ہے ؟
جواب: ہمارے ملک مےں نا خوانگی اور لا علمی ،عدم توجگی اس بےماری کا پھےلنے کا سبب ہے تھےلےسےمےا مےں مبتلا مرےضوں کی اکثرےت کا تعلق پسماندہ علاقوں اور دےہاتوں سے ہے جہا پر بےمارےوںکو جانچنے کے لئے اور علاج کی سہولےات موجود نہےں ہوتی ہے اور خاص طور پر خاندان کے اندر شادےاں اور شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹےسٹ نہ کرانا۔

سوال: تھےلےسمےا سے بچنے کے لےئے کون سی تدابےر کرنی چاہئے؟
جواب: سب سے اہم تدابےر ےہ ہے کہ شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹےسٹ کرانا چاہئے اور اےسے مرد اور عورت کو آپس مےں شادی نہےں کرنی چاہئے جن مےں تھےلےسےمےا مائنر کے اثرات موجود ہوشادی شدہ جوڑو کو پہلے حمل کے ساتھ خون کی ٹےسٹ کرانا ضروری ہے مرد اور عورت دونو مےںتھےلےسمےا ماہنر کے اثرات موجود ہے تو حاملا عورت کو سی وی اےس (chorionic villus sampling) ٹےسٹ کرانی چاہئے اس ٹےسٹ مےں ےہ پتہ چلے گا کے بچے کو تھےلےسمےا مےجر ہے ےہ نہےں اگر ہے تو اس حمل کو ضائع کرالےنا چاہئے۔

 سوال : آپ کا ادارہ تھیلسمیا کی بیماری کی روک تھام اور اس مرض میںمبتلا مریضوں کے علاج کے لیئے کیا اقدامات کر رہا ہے ؟
جواب: ہمارے ادارے مےں تھےلےسمےا کے 570 تھےلےسمےا مےجر کے پےشنٹ رجسٹرہےں جن کو time to time خون دےا جاتا ہے اور ان کی ٹےسٹے کرائی جاتی ہے اور ان کو دوائےاں بھی مفت فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ کمےونٹی بےس پر سےمےنار ورکشاپس کا انعقاد کر کے gross root لےول پر لوگوں کو خاص طور پر عورتوں اور والدےن کو اس مہلک بےماری کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور موبائےل کےمپس لگا کر شادی شدہ اور غےر شادی شدہ جوڑو اور بچو کی مفت مےں ٹےسٹے کی جاتی ہے ۔

سوال:آپ نے تھیلسمیاکی روک تھام اور اس بےماری مےں مبتلا بچوں کی جا نیں بچانے مےںکس حد تک کامےابی حاصل کی ہے؟
جواب: ہم نے اب تک 182 خاندانوں کو تھیلسمیا بےماری سے مکمل طور پر نجات دلا کر سینکڑوں لو گو ں کی جانیں ضائع ہو نے سے بچائی ہیں جو کہ ہمارے ادارے کی بہت بڑی کامےابی ہے اس کے علاوہ تھےلسمیاکےئر سےنٹر بدین ملک کا واحد سےنٹر ہے جہا پر homoglobin electrophoresis اور chorionic villus sampling ٹےسٹےں فری آف کاسٹ کی جاتی ہے جبکہ مذکورہ ٹےسٹےںملک کی مخصوص بڑی اور نامور اسپتالوں اور لےبارٹرےوں مےں 12000 سے 30000 روپے مےںکی جاتی ہے لیکن اس وقت ہما را ادارانتہا ئی ما لی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے کا کر نے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ 

سوال:آپ نے بتایا کہ پہلے سندھ کے 8 اضلاع کے مریضوں کا علاج کیا جا تا تھا اور بچو ں کو خون دیا جا تا تھا اب کیا وجہ ہے کے اس سینٹر کو آپ نے بدین کی حد تک محدود کر دیا ہے ؟
جواب:ہمارے یہاںتھیلسمیا میں مبتلا بچو ں کو صرف خون نہیں دیا جا تا ہے بلکہ ایسے بھی بچے ہیں جن کو سینٹر میں دا خل کرنا پڑ تا ہے ان بچو ں کو خون کے علاوہ ان کی وقت بہ وقت ٹیسٹیں کی جا تی ہیں ضرورت پڑنے پر ان بچو ں کی کراچی سے بھی ٹیسٹیں کرائی جا تی ہیں جن پر اخراجات زیا دہ ہو تے ہیں اور بچو ں کے ساتھ ان کے وا لدین کی بھی وقت بہ وقت ٹیسٹیں وغیرہ کرائی جا تی ہیں اور دوائیاں بھی مہیا کی جا تی ہیں اس بیما ری کا علاج مہنگا ہو نے کے ساتھ سینٹر میں کا م کرنے والے ملا زمین کی تنخواہیں اور انتہا ئی جدید اور قیمتی آلات، لیبارٹری، بلڈنگ کی مینٹینس وغیرہ اور بچو ں کے لیئے خون جمع کرنے کے لیئے کئمپس لگا نے کے ساتھ کمیو نٹیز میں جاکر لو گو ں کو آگا ہی دینے وغیرہ میں اخراجات ہو تے ہیں ا س وقت حکومت سندھ ک جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ دی جا تی ہے ایک تو وہ نا کافی ہے اور بجٹ جاری کرنے میں افسر شا ہی کی جانب سے روڑے اٹکائے جا تے ہیں وہ نتہا ئی تکلیف دہ ہو تا ہے کم سے کم سالنہ بجٹ 5 کروڑ روپے ہو نی چا ہیئے اور اگر سندھ اور وفاقی حکومت اور مخیر حضرات اس سینٹر کی با قا ئدہ ما لی معاونت کریں اور سول سو سا ئٹی کی تنظیمیں خون کے عطیہ میں معا ونت کریں تو یہ سینٹر ملک کے ساتو ں سینٹروں سے زیا دہ رزلٹ دے سکتا ہے اس سینٹر سے نہ صرف بدین ضلع بلکہ ملک بھر کے اضلاع کے تھیلسمیا کے مریض اور بچے استفادہ ہو سکتے ہیں کیو ں کے بدین کے اس سنیٹر میں تھیلسمیا کی روک تھام اور علاج کے اور تھیلسمیا بیماری کی تشخیص کے لیئے مطلوبہ جدید آلات،لیبا رٹریر، وغرہ موجود ہے

     انٹر ویو : واثق احمد میمن
 ایم اے(previous) رول نمبر 70 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 


Friday, 12 February 2016

Interview with Dr Nabi Bux Narejo

foto is required. There are some spelling and composing mistakes
Interview with Dr Nabi Bux Narejo
ثناء شیخ
ماس کمیونیکیشن
رول نمبر:55
کلاس:M.A Previous 
      انٹرویو     
                 نبی بخش ناریجو 

 ڈاکٹر نبی بخش ناریجو چیئرمین آف شعبہ کرمنا لوجی یونیورسٹی آف سندھ ہیں۔ آپ سندھ کرمنالوی میں ڈکٹریٹ کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ ان کی پیدائش کی 1970کوہوئی، انہیں گانہ گانے، موسیقی، صوفی ازم اور شاعری کا بہت شوق ہے، ان کا
مننا ہے کہ ہم کرائم کو صوفی ازم سے کم کےا جا سکتا ہے۔

سوال:آپ کا مننا ہے کہ کرائم کو صوفی ازم سے کم کےا جاسکتا ہے لیکن کیسے ؟
جواب:صوفی ازم یک فلوسوفی آف پیس ہے ایک ٹولرینس ہے سندھ بنےادی طور پر صوفیوں کی زمین رہی ہے۔ صوفی ازم ایک میتھڈ نہیں بلکہ ایک چینل ہے میں سمجھ تا ہوںکہ پوزیٹیوٹی صوفی ازم وہ صوفی ازم نہیں جوکہ ہمیں مزارات سے ملتا ہے بلکہ وہ صوفی ازم جو ہمیں شاہ عنایت اور شاہ عبدللطیف کی شاعری سے ملتا ہے اُس سے ہم لوگوں کو دلی سکون دے کر کرائم کو ختم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔

سوال:آپ کےا سمجھتے ہیں کہ کےا کرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اگر ہو رہا ہے تو کیسے؟
جواب:آبادی بڑھ رہی ہے ۔ادارے جن کو کام کرنا چاہیے جیساکہ پولیس ،کرمنل جسٹس وہ کام کرتے نہیں ہےں۔ہمارے یہاں مین پاور اُن کو نہیں ہے جن کے پاس ایڈوانس نالیج ہو۔ہمارے یہاںکی پولیس کو نالیج تو ہے مگر ایڈوانس نالیج نہیں ہے ہمارے یہاں کے ھیڈ کانسٹیبل ایڈوانس کرائم کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ تعلیم بہت لازمی ہے آج کل کے کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے

سوال:آپ کے خیال سے اِیسے کون سے عملی اقدامات کرنے چاہیے جو کرئم کو روکنے کا سبب بنے ؟
جواب:سب سے پہلے ہمیں ریسرچ اور ڈیٹا کلیکٹر میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مواقع دینے چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو بتائے کے کے صحیح ہے اورکےا غلط اور ان کو فنڈنگ بھی دی جائے تاکہ وہ لوگوں میں بلکہ خاص طور پر گاوں گوٹھ میں جاکر سیمینار کرواے جس سے لوگوں میں شعور پیدا ہو اور ماں باپ کو چائیے کے اپنے بچوں کے سامنے ایسی زبان کا انتخاب نہ کرے ۔جن سے اُن پر غلط اثر پڑے۔اور میرا پرپوزل یہ ہے کے پولیس کو پرایویٹایئز کرنا چاہیے۔اور جب بھی ایف آئی آر درج کی جائے تب ایک جرنالجسٹ ایک کرمنالوجسٹ کو ساتھ بیٹھا کر پھر ہی آف ائی ار لونچ کی جائے ایکایس ایچ وت کو اس بات کا پاور نہیں ہو کے وہ ایف آئی آر درج کر سکے ۔ 

سوال: طلبہ میں کرمنا لوجی کے رجحان کو کس طرح سے بڑھا ےا جاسکتا ہے؟
جواب: طلبہ میں کرمنا لوجی کا رجحان کافی نہیں بلکہ بہت بڑھ چکا ہے اگر رجحان بڑھانا ہے تو وہ گوارنمنٹ کا رجحان بڑھانا چاہیے جس نے بلکل ہی کرمنا لوجی کو اندیکھا کر دےا ہے گوانمنٹ کو چاہیے کے اس ادارے پر خاص توجہ دی تاکہ اس کو مزید بہتر بناےا جا سکے ۔

سوال: قانون بھی ہے سزابھی ہے پھر بھی جرم ہو رہا ہے؟

سوال:کرمنالوجی میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے آخر اس کی کےا وجہ ہے؟
جواب:جب کرمنا لوجی اسٹارٹ ہوا تھا تو لڑکےا ں بہت دری ہوئی تھی کہ پتا نہیں کےا ہے کرمنا لوجی شاید ہمیں ٹیراریزم پڑھائے گے پتا نہیں کےا ہوگا لیکن ماشااللہ اب لڑکےوں میں آہستہ آہستہ آگاہی بڑھ رہی ہے تو لڑکیاں بھی کا فی انٹراسٹیڈ ہےں۔ لیکن اب ہمارے یہاں 25کا ریشو ہے ۔

سوال:کرمنا لوجی کے شعبہ میں آپ کیسے تبدیلیاں چاہتے ہےں؟
جواب:ہمارے اس شعبہ میں نہ تو کرسیاں ہے اور نہ ہی کلاس روم ہے ہمارے یہاں فائنل ایئر کی کلاس کلارک افیس میں لی جاتی ہے اور تو اور ہمارے پاس اپنی نہ تو سیمینار لائبریری ہے اور نہ ہی فورنسک لیب ہے یہ سب چیزعں کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ 

سوال:کرمنا لوجی میں میڈیا کا کےا رول ہے؟
جواب:دیکھے ہمارا اور میڈےا کا تقریبن سیم ہی کام ہے میڈےا پرسن ہمارا اسوسییٹ ہے۔ہمارا کام ہے کے کرئم کو انویسٹیگیٹ کلیکٹ کرنا اور پروفائیل بنانا ہے لکن ایک جرنالسٹ کاکام ہے کرئم کو اور کرئم کی تفصیلات کو عوام تک پہچاناہے ۔اور میں یہ سمجھتا ہو کہ یہ دونوں ہی معاشرہ کا ایک اہم پہلو ہیں۔

سوال : کےاکرئم کے خاتمے کا حل کےا صرف سزا موت ہے؟
جواب:بلکل نہیں ۔ایک کرمنالوجسٹ ایک جرنالسٹ اور حکومت کے لا میکر کے ساتھ مل کر بیٹھنا چاہیے اور ایسا ایک پلان تشکیل دینا چائیے جس سے ان کو دماغی طور پر ٹرینڈ کر کہ انھیں بھی سوسایٹی کا حصہ بننا چایئے۔

سوال:بے روزگاری بڑھتے ہوئے کرائم کی وجہ ہے اگر ہے تو کیوں ہے؟
جواب: جی ہاں بلکل بڑھتی ہو ئی بےروزگار ی کرا ئم کو تقویت دے رہی ہے ۔ بیروزگاری کو ختم کرے کرائم اپنے اپ ختم ہوجائے گا۔ 

 سوال:پاکستان میں کرمنا لوجی کا کےا اسکوپ ہے؟
جواب: دنیاں میں اگر کہی خون ہوتا ہے تو ایک کرمنا لوجسٹ کا ہی کام ہے کہ وہ اس کے ہر ایک اہم پہلوں پر روشنی ڈالے جو کے انصاف کی فرہامی میں آسانی کاباعث بنتے ہےںلیکن اگر ہمارے ملک میں کہی خوں ہوجائے تو ایک پولیس والا ہی اس سارے معملا کو اسڑیڈی کرتاہے جو کہ ان سب کے لئے تےار نہیں ہوتا تو لہاذا کیس کے مختلف پھلوں رہے جاتے ہےں جس کی وجہ سے نہ جانے کیتنے لوگ انصاف سے محروم ہوجاتے ہےں۔

سوال:کرمنا لوجی کا سوسائٹی پر کےا اثرپڑتا ہے؟ 
جواب:سوسائٹی ہمیں بہت چاہتی ہے ہماری بہت عزت کرتی ہے لکین افسوس ہے کہ گوارنمیٹ ہمیں بہت نیگلیکٹ کرتی ہے جس بات کا دکھ بھی ہے ہمیں۔

سوال:آپ پاکستان کی ےوتھ کو کرمنا لوجی کے حوالے سے کےا پیغام دینا چاہتے ہےں ؟
جواب :ےوتھ کو میں یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا وقت زایانہ کرے دوستوں کہ ساتھ بیٹھنا ٹائم پاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا آپ تعلیم میں ماسٹر جائے ہو ئے معاشرہ آپ کو خود ہی اہمیت دی گااور اگر اپ کے پاس ماسٹر نالیج نہیں تو پھر بے کار ہے سب چیزے آپ کی لئے بھی اور آپ کے معاشرہ کے لئے بھی۔ 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro