Revised
Interview with Dr Haroon Memon by Wasique Memon
It is bit long. Composing mistakes as u used ے instead of ی
Interview with Dr Haroon Memon by Wasique Memon
ملک میں بڑہتی ہو ئی تھیلسیمیا کی بیماری کی روک تھام اور ملک کے ساتویں بڑے تھیلسیما
کیئر سینٹر بدین کن مسائل کا شکار ہے سینٹر کے بانی ڈاکٹر محمد ھا رون میمن کی زبانی؛؛ انٹر ویو : واثق احمد میمن
پروفائل
ڈاکٹر محمد ھارون میمن جن کو بدین کا ایدھی کہا جاتا ہے نے 1962 ء میں بدین شہر میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول بدین اور گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری سائنس کالج بدین سے انٹر کرنے کے بعد لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس جامشورو سے1988ء میں ایم بی بی ایس کیڈگری حاصل کرنے کے بعد4 199 ء میں ڈی سی پی (DCP)کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بحیثیت سینئر پیتھالاجسٹ سول ہسپتال بدین میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں شروع سے ہی عوامی خدمت کا جذبہ آپ کے اندر موجود تھا جسے بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں تیزی سے پھلنے والی جان لیوا بیماری تھیلیسمیا کی روک تھام کے لئے آپ کی کوششوں سے 20 جون 2005ء میں تھیلیسما کےئر سینٹر بدین کا اپنی مدد آپ کے تحت بنیاد رکھا تھیلیسمیا کےئر سینٹر بدین کا شمار ملک بھر میں قائم 7 بڑے سینٹروں میں ہوتا ہے اس سینٹرکی عمارت کا بنیاد 20 جون 2005 کورکھا گیا جس کاافتتاح اس وقت کے امریکی ایمبیسڈر Mr Ryan c.crocker نے کیا سینٹر کے بانی ڈاکٹر محمد ھارون میمن سے تھیلیسمیا بیماری کے پھلاؤ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے ہونے والی گفتگو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے؛
سوال: آپ کو تھیلیسمیا کی روک تھام کے لئے یہ سینٹر قائم کرنے کا خیال کیو آیا؟
جواب: میں جب سول اسپتال بدین میں بطورسینئر پتھالوجسٹ مقرر ہوا تو میرے پاس آنے والے خاص طور پر بچے اسی بیماری میں مبتلا ہوتے تھے جن کا مستقل طور پر علاج ہونے اور اس بیماری کو روکنے کے لےئے حکومتی سطح پر کوئی بھی بندوبست نہیں تھا اور اس کا علاج اور ٹیسٹوں پر بھاری خرچہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی اکثریت وہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے جو کے زیادہ تر بچوں کی اموات سبب تھا میں نے اپنے چند مخیر دوستوں کی مدد سے اس بیماری میں مبتلا غریب مریضوں اور بچوں کو مطلوب طبی مدد فراہم کرنے اور اس بیماری کی روک تھام کے لےئے یہ ادارہ قائم کیا۔
سوال:اتنے بڑے ادارے کو چلانے کے لےئے اخراجات کا بندوبست کیسے کرتے ہیں؟
جواب: اس ادارے کو چلانے کے لےئے ہم نے سوسائٹی فار کےئر آف تھیلیسمیا پیشنٹ(society for care of thalessmeamia patients ) بدین قائم کی اس میں مقامی طور پر مخیر حضرات کو اس سوسائٹی میں شامل کیا گیا ان کی مالی مدد سے ادارے کے اخراجات چلائے جاتے تھے اور پھر ہمارے اس سینٹر سے سندھ کے 8 اضلاع کے مریض اور بچے مستفید ہونے لگے اور کچھ با اثر اور صاحب حیثیت لوگوں کے بچے جو اس بیماری میں مبتلا تھے ان کو بھی ہمارے اس ادارے سے proper treatment ملنی شروع ہوئی جس میں اس وقت کے بدین کے ضلع ناضم کی بچی بھی شامل تھی اور اس ضلع ناضم نے پہلی مرتبہ ضلع حکومت بدین کی جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ اس ادارے کے لےئے مختص کی جو کہ اب سندھ حکومت کی جانب سے ملتی ہے ۔
سوال: تھیلیسمیا کیا ہے؟
جواب:تھیلیسمیا ایک موروثی بیماری ہے جو کہ والدین سے بچو میں منتقل ہوتی ہے تھلیسمیا خون کی ایک ایسی بیماری ہے جو نسل در نسل بچو میں منتقل ہوتی ہے ۔
سوال:تھلیسمیا بڑھنے کے اسباب کیا ہے ؟
جواب: ہمارے ملک میں نا خوانگی اور لا علمی ،عدم توجگی اس بیماری کا پھیلنے کا سبب ہے تھیلیسیمیا میں مبتلا مریضوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں سے ہے جہا پر بیماریوں کو جانچنے کے لئے اور علاج کی سہولیات موجود نہیں ہوتی ہے اور خاص طور پر خاندان کے اندر شادیاں اور شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹیسٹ نہ کرانہ۔
سوال: تھیلیسمیا سے بچنے کے لےئے کون سی تدابیر کرنی چاہئے؟
جواب: سب سے اہم تدابیر یہ ہے کہ شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹیسٹ کرانا چاہئے اور ایسے مرد اور عورت کو آپس میں شادی نہیں کرنی چاہئے جن میں تھیلیسیمیا مائنر کے اثرات موجود ہوشادی شدہ جوڑو کو پہلے حمل کے ساتھ خون کی ٹیسٹ کرانا ضروری ہے مرد اور عورت دونو میں تھیلیسمیا ماہنر کے اثرات موجود ہے تو حاملا عورت کو سی وی ایس (chorionic villus sampling) ٹیسٹ کرانی چاہئے اس ٹیسٹ میں یہ پتہ چلے گا کے بچے کو تھیلیسمیا میجر ہے یہ نہیں اگر ہے تو اس حمل کو ضائع کرالینا چاہئے۔
سوال : آپ کا ادارہ تھیلسمیا کی بیماری کی روک تھام کے لیئے اور اس بیماری مین مبتلا مریضوں کے علاج کے لیئے کیا اقدامات کر رہا ہے ؟
جواب: ہمارے ادارے میں تھیلیسمیا کے 570 تھیلیسمیا میجر کے پیشنٹ رجسٹرہیں جن کو time to time خون دیا جاتا ہے اور ان کی ٹیسٹے کرائی جاتی ہے اور ان کو دوائیاں
بھی مفت فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ کمیونٹی بیس پر سیمینار ورکشاپس کا انعقاد کر کے gross root لیول پر لوگوں کو خاص طور پر عورتوں اور والدین کو اس مہلک بیماری کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور موبائیل کیمپس لگا کر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑو اور بچو کی مفت میں ٹیسٹے کی جاتی ہے ۔
سوال:آپ نے تھیلسمیاکی روک تھام اور اس بیماری میں مبتلا بچوں کی جا نیں بچانے میں کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے؟
جواب: ہم نے اب تک 182 خاندانوں کو تھیلسمیا بیماری سے مکمل طور پر نجات دلا کر سینکڑوں لو گو ں کی جانیں ضائع ہو نے سے بچائی ہیں جو کہ ہمارے ادارے کی بہت بڑی کامیابی ہے اس کے علاوہ تھیلسمیاکےئر سینٹر بدین ملک کا واحد سینٹر ہے جہا پر homoglobin electrophoresis اور chorionic villus sampling ٹیسٹیں فری آف کاسٹ کی جاتی ہے جبکہ مذکورہ ٹیسٹیں ملک کی مخصوص بڑی اور نامور اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں 12000 سے 30000 روپے میں کی جاتی ہے لیکن اس وقت ہما را ادارانتہا ئی ما لی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے کا کر نے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں
سوال:آپ نے بتایا کہ پہلے سندھ کے 8 اضلاع کے مریضوں کا علاج کیا جا تا تھا اور بچو ں کو خون دیا جا تا تھا اب کیا وجہ ہے کے اس سینٹر کو آپ نے بدین کی حد تک محدود کر دیا ہے ؟
جواب:ہمارے یہاں تھیلسمیا میں مبتلا بچو ں کو صرف خون نہیں دیا جا تا ہے بلکہ ایسے بھی بچے ہیں جن کو سینٹر میں دا خل کرنا پڑ تا ہے ان بچو ں کو خون کے علاوہ ان کی وقت بہ وقت ٹیسٹیں کی جا تی ہیں ضرورت پڑنے پر ان بچو ں کی کراچی سے بھی ٹیسٹیں کرائی جا تی ہیں جن پر اخراجات زیا دہ ہو تے ہیں اور بچو ں کے ساتھ ان کے وا لدین کی بھی وقت بہ وقت ٹیسٹیں وغیرہ کرائی جا تی ہیں اور دوائیاں بھی مہیا کی جا تی ہیں اس بیما ری کا علاج مہنگا ہو نے کے ساتھ سینٹر میں کا م کرنے والے ملا زمین کی تنخواہیں اور انتہا ئی جدید اور قیمتی آلات ،لیبا رٹری، بلڈنگ کی مینٹینس و غیرہ اور بچو ں کے لیئے خون جمع کرنے کے لیئے کئمپس لگا نے کے ساتھ کمیو نٹیز میں جاکر لو گو ں کو آگا ہی دینے وغیرہ میں اخراجات ہو تے ہیں ا س وقت حکومت سندھ ک جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ دی جا تی ہے ایک تو وہ نا کافی ہے اور بجٹ جاری کرنے میں افسر شا ہی کی جانب سے روڑے اٹکائے جا تے ہیں وہ نتہا ئی تکلیف دہ ہو تا ہے کم سے کم سالنہ بجٹ 5 کروڑ روپے ہو نی چا ہیئے اور اگر سندھ اور وفاقی حکومت اور مخیر حضرات اس سینٹر کی با قا ئدہ ما لی معاونت کریں اور سول سو سا ئٹی کی تنظیمیں خون کے عطیہ میں معا ونت کریں تو یہ سینٹر ملک کے ساتو ں سینٹروں سے زیا دہ رزلٹ دے سکتا ہے اس سینٹر سے نہ صرف بدین ضلع بلکہ ملک بھر کے اضلاع کے تھیلسمیا کے مریض اور بچے استفادہ ہو سکتے ہیں کیو ں کے بدین کے اس سنیٹر میں تھیلسمیا کی روک تھام اور علاج کے اور تھیلسمیا بیماری کی تشخیص کے لیئے مطلوبہ جدید آلات،لیبا رٹریر، وغرہ موجود ہے
انٹر ویو : واثق احمد میمن ایم اے(پریویس سال اول) رول نمبر 70
ماس کمیو نیکیشن ،سندھ یو نیورسٹی جامشورو سندھ
-------------------------------------------------------------
when it is converted for web site this mistake appears. U can see on web site it is not readable.
ڈاکٹر محمد ہارون میمن سے انٹرویو
انٹرویو : واثق احمد میمن
ایم اے(previous) رول نمبر 70
پروفائل
ڈاکٹر محمد ھارون میمن 1962 ءمیں بدین شہر میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول بدین اور گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری سائنس کالج بدین سے انٹر کرنے کے بعد لےاقت ےونےورسٹی آف مےڈےکل اےنڈ ہےلتھ سائنس جامشورو سے1988ءمےں اےم بی بی اےس کیڈگری حاصل کرنے کے بعد4 199 ءمےں ڈی سی پی (DCP)کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بحےثےت سینئر پیتھالاجسٹ سول ہسپتال بدین میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہےں شروع سے ہی عوامی خدمت کا جذبہ آپ کے اندر موجود تھا جسے بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں تےزی سے پھلنے والی جان لےوا بےماری تھےلےسمےا کی روک تھام کے لئے آپ کی کوششوں سے 20 جون 2005ءمیں تھےلےسما کےئر سےنٹر بدین کا اپنی مدد آپ کے تحت بنےاد رکھا تھےلےسمےا کےئر سےنٹر بدین کا شمار ملک بھر مےں قائم 7 بڑے سےنٹروں مےں ہوتا ہے اس سےنٹرکی عمارت کا بنےاد 20 جون 2005 کورکھا گےا جس کاافتتاح اس وقت کے امرےکی اےمبےسڈر Mr Ryan c.crocker نے کےا سےنٹر کے بانی ڈاکٹر محمد ھارون مےمن سے تھےلےسمیا کے علاج اور کی روک تھام کے حوالے سے ہونے والی گفتگو قارئےن کے لئے پےش خدمت ہے
سوال: آپ کو تھےلےسمےا کی روک تھام کے لئے ےہ سےنٹر قائم کرنے کا خےال کےو آےا؟
جواب: مےں جب سول اسپتال بدین مےں بطورسےنئر پتھالوجسٹ مقرر ہوا تو مےرے پاس آنے والے خاص طور پر بچے اسی بےماری مےں مبتلا ہوتے تھے جن کا مستقل طور پر علاج ہونے اور اس بےماری کو روکنے کے لےئے حکومتی سطح پر کوئی بھی بندوبست نہےں تھا اور اس کا علاج اور ٹےسٹوں پر بھاری خرچہ ہونے کی وجہ سے مرےضوں کی اکثرےت وہ خرچہ برداشت نہےں کرسکتے تھے جو کے زےادہ تر بچوں کی اموات سبب تھا مےں نے اپنے چند مخےر دوستوں کی مدد سے اس بےماری مےں مبتلا غرےب مرےضوں اور بچوں کو مطلوب طبی مدد فراہم کرنے اور اس بےماری کی روک تھام کے لےئے یہ ادارہ قائم کےا۔
سوال:اتنے بڑے ادارے کو چلانے کے لےئے اخراجات کا بندوبست کےسے کرتے ہےں؟
جواب: اس ادارے کو چلانے کے لےئے ہم نے سوسائٹی فار کےئر آف تھےلےسمےا پےشنٹ(society for care of thalessmeamia patients ) بدےن قائم کی اس مےں مقامی طور پر مخےر حضرات کو اس سوسائٹی مےں شامل کےا گےا ان کی مالی مدد سے ادارے کے اخراجات چلائے جاتے تھے اور پھر ہمارے اس سےنٹر سے سندھ کے 8 اضلاع کے مرےض اور بچے مستفےد ہونے لگے اور کچھ با اثر اور صاحب حےثےت لوگوں کے بچے جو اس بےماری مےں مبتلا تھے ان کو بھی ہمارے اس ادارے سے proper treatment ملنی شروع ہوئی جس مےں اس وقت کے بدین کے ضلع ناضم کی بچی بھی شامل تھی اور اس ضلع ناضم نے پہلی مرتبہ ضلع حکومت بدین کی جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ اس ادارے کے لےئے مختص کی جو کہ اب سندھ حکومت کی جانب سے ملتی ہے ۔
سوال: تھےلےسمےا کےا ہے؟
جواب:تھےلےسمےا اےک موروثی بےماری ہے جو کہ والدےن سے بچو مےں منتقل ہوتی ہے تھلےسمےا خون کی اےک ایسی بےماری ہے جو نسل در نسل بچو مےں منتقل ہوتی ہے ۔
سوال:تھلےسمےا بڑھنے کے اسباب کےا ہے ؟
جواب: ہمارے ملک مےں نا خوانگی اور لا علمی ،عدم توجگی اس بےماری کا پھےلنے کا سبب ہے تھےلےسےمےا مےں مبتلا مرےضوں کی اکثرےت کا تعلق پسماندہ علاقوں اور دےہاتوں سے ہے جہا پر بےمارےوںکو جانچنے کے لئے اور علاج کی سہولےات موجود نہےں ہوتی ہے اور خاص طور پر خاندان کے اندر شادےاں اور شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹےسٹ نہ کرانا۔
سوال: تھےلےسمےا سے بچنے کے لےئے کون سی تدابےر کرنی چاہئے؟
جواب: سب سے اہم تدابےر ےہ ہے کہ شادی سے پہلے مرد اور عورت کی خون کا ٹےسٹ کرانا چاہئے اور اےسے مرد اور عورت کو آپس مےں شادی نہےں کرنی چاہئے جن مےں تھےلےسےمےا مائنر کے اثرات موجود ہوشادی شدہ جوڑو کو پہلے حمل کے ساتھ خون کی ٹےسٹ کرانا ضروری ہے مرد اور عورت دونو مےںتھےلےسمےا ماہنر کے اثرات موجود ہے تو حاملا عورت کو سی وی اےس (chorionic villus sampling) ٹےسٹ کرانی چاہئے اس ٹےسٹ مےں ےہ پتہ چلے گا کے بچے کو تھےلےسمےا مےجر ہے ےہ نہےں اگر ہے تو اس حمل کو ضائع کرالےنا چاہئے۔
سوال : آپ کا ادارہ تھیلسمیا کی بیماری کی روک تھام اور اس مرض میںمبتلا مریضوں کے علاج کے لیئے کیا اقدامات کر رہا ہے ؟
جواب: ہمارے ادارے مےں تھےلےسمےا کے 570 تھےلےسمےا مےجر کے پےشنٹ رجسٹرہےں جن کو time to time خون دےا جاتا ہے اور ان کی ٹےسٹے کرائی جاتی ہے اور ان کو دوائےاں بھی مفت فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ کمےونٹی بےس پر سےمےنار ورکشاپس کا انعقاد کر کے gross root لےول پر لوگوں کو خاص طور پر عورتوں اور والدےن کو اس مہلک بےماری کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور موبائےل کےمپس لگا کر شادی شدہ اور غےر شادی شدہ جوڑو اور بچو کی مفت مےں ٹےسٹے کی جاتی ہے ۔
سوال:آپ نے تھیلسمیاکی روک تھام اور اس بےماری مےں مبتلا بچوں کی جا نیں بچانے مےںکس حد تک کامےابی حاصل کی ہے؟
جواب: ہم نے اب تک 182 خاندانوں کو تھیلسمیا بےماری سے مکمل طور پر نجات دلا کر سینکڑوں لو گو ں کی جانیں ضائع ہو نے سے بچائی ہیں جو کہ ہمارے ادارے کی بہت بڑی کامےابی ہے اس کے علاوہ تھےلسمیاکےئر سےنٹر بدین ملک کا واحد سےنٹر ہے جہا پر homoglobin electrophoresis اور chorionic villus sampling ٹےسٹےں فری آف کاسٹ کی جاتی ہے جبکہ مذکورہ ٹےسٹےںملک کی مخصوص بڑی اور نامور اسپتالوں اور لےبارٹرےوں مےں 12000 سے 30000 روپے مےںکی جاتی ہے لیکن اس وقت ہما را ادارانتہا ئی ما لی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے کا کر نے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔
سوال:آپ نے بتایا کہ پہلے سندھ کے 8 اضلاع کے مریضوں کا علاج کیا جا تا تھا اور بچو ں کو خون دیا جا تا تھا اب کیا وجہ ہے کے اس سینٹر کو آپ نے بدین کی حد تک محدود کر دیا ہے ؟
جواب:ہمارے یہاںتھیلسمیا میں مبتلا بچو ں کو صرف خون نہیں دیا جا تا ہے بلکہ ایسے بھی بچے ہیں جن کو سینٹر میں دا خل کرنا پڑ تا ہے ان بچو ں کو خون کے علاوہ ان کی وقت بہ وقت ٹیسٹیں کی جا تی ہیں ضرورت پڑنے پر ان بچو ں کی کراچی سے بھی ٹیسٹیں کرائی جا تی ہیں جن پر اخراجات زیا دہ ہو تے ہیں اور بچو ں کے ساتھ ان کے وا لدین کی بھی وقت بہ وقت ٹیسٹیں وغیرہ کرائی جا تی ہیں اور دوائیاں بھی مہیا کی جا تی ہیں اس بیما ری کا علاج مہنگا ہو نے کے ساتھ سینٹر میں کا م کرنے والے ملا زمین کی تنخواہیں اور انتہا ئی جدید اور قیمتی آلات، لیبارٹری، بلڈنگ کی مینٹینس وغیرہ اور بچو ں کے لیئے خون جمع کرنے کے لیئے کئمپس لگا نے کے ساتھ کمیو نٹیز میں جاکر لو گو ں کو آگا ہی دینے وغیرہ میں اخراجات ہو تے ہیں ا س وقت حکومت سندھ ک جانب سے 2 کروڑ روپے سالانہ بجٹ دی جا تی ہے ایک تو وہ نا کافی ہے اور بجٹ جاری کرنے میں افسر شا ہی کی جانب سے روڑے اٹکائے جا تے ہیں وہ نتہا ئی تکلیف دہ ہو تا ہے کم سے کم سالنہ بجٹ 5 کروڑ روپے ہو نی چا ہیئے اور اگر سندھ اور وفاقی حکومت اور مخیر حضرات اس سینٹر کی با قا ئدہ ما لی معاونت کریں اور سول سو سا ئٹی کی تنظیمیں خون کے عطیہ میں معا ونت کریں تو یہ سینٹر ملک کے ساتو ں سینٹروں سے زیا دہ رزلٹ دے سکتا ہے اس سینٹر سے نہ صرف بدین ضلع بلکہ ملک بھر کے اضلاع کے تھیلسمیا کے مریض اور بچے استفادہ ہو سکتے ہیں کیو ں کے بدین کے اس سنیٹر میں تھیلسمیا کی روک تھام اور علاج کے اور تھیلسمیا بیماری کی تشخیص کے لیئے مطلوبہ جدید آلات،لیبا رٹریر، وغرہ موجود ہے
انٹر ویو : واثق احمد میمن
ایم اے(previous) رول نمبر 70
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro
No comments:
Post a Comment