Thursday, 19 May 2016

Assignment improver failure 2016

Assignment improver failure First Semester 2016
Hard copy
MA Previous
Roll 43  Sohail Ahmed   pieces 4,    Reports 4
2k12/20  Danial Jafar      pieces 4 ,  Reports 4
2k15/ 23 Junaid Khuhro  pieces 4,  Reports 3


2k13/65 M.Asad Abbasi    Pieces 2, Reports Nil
2k/11/ 92 Shahzad Akhtar  Pieces 3, Reports 3

Regular
Profiles received

1) Fariya  2) Sadam Lashari, 3) Imtiaz Abbasi, 4) Rehma Talpur, 5) Abdul Ghaffar, 6) Dur Shahwar,  7) Sana Shaikh, 8) Sattar Lakho,  9) Aakash Hameerani

Question papers
Regular
BS-II News Reporting Major, (Theory and Practice) First semester 2016  Marks 60 time 2 hours

Attempt four questions. Question No 1 is compulsory
1. What is news? Find elements of news in the following news item and how you will further develop this news;
 KARACHI: At least four sustained minor injuries in a clash between two student groups in the Dawood University of Engineering and Technology on Thursday, the Jamshed Quarters police said. The activists belonging to the Imamia Students Organisation and the Punjabi Students Association clashed on the varsity premises in which clubs and stones were used resulting in injuries to four students, the police added. The injured students were discharged from the Civil Hospital Karachi after first medical aid.

2. Writing is skill if so, how? Enumerate the steps of writing.
3.  Is there any importance of letter to the editor?  Suggest tips for writing a good letter to the editor   
4.  What are the essentials of reporting?  How a reporter gathers news
5. Do you think media is free in Pakistan? Which elements control the media?

-----------------------------------------------------------------
Improver failure
BS-II News Reporting News Reporting Major, (Theory and Practice)   First semester 2016   Marks 100 time 2 and half hours

Attempt Five questions. Question No 1 is compulsory

1. What is news? Find elements of news in the following news item and how you will further develop this news;
 KARACHI: At least four sustained minor injuries in a clash between two student groups in the Dawood University of Engineering and Technology on Thursday, the Jamshed Quarters police said. The activists belonging to the Imamia Students Organisation and the Punjabi Students Association clashed on the varsity premises in which clubs and stones were used resulting in injuries to four students, the police added. The injured students were discharged from the Civil Hospital after first medical aid.

2. Writing is skill if so, how? Enumerate the steps of writing.
3.  Is there any importance of letter to the editor?  Suggest tips for writing a good letter to the editor  
4.  What are the essentials of reporting?  How a reporter gathers news
5. Do you think media is free in Pakistan? Which elements control the media?

6. Journalism has set pattern of some principles, by following these principles they take professional approach. Can you elucidate these principles?

NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)

BS-III  1st Semester Regular 2016
Attempt any three questions            Total marks 30     Time: 1and half hours
Q: 1: Editorializing can manipulate the thinking, how? Elucidate elements of editorial emphasis 
Q: 2: What is legal procedure for publishing a newspaper?
Q: 3: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting
Q: 4: Are Sindhi, Urdu and English newspapers different from each other in contents, approach, layout, format and size? Give a comparative study

Regular
M.A Previous
NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)

1st Semester 2016
Attempt four questions            Total marks 50     Time: 2 hours
Question No 5 is compulsory
Q:1: What is legal procedure for publishing a newspaper?
Q: 2: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting 
Q: 4:  How Feature and Article are different from each other?
Q: 5: Write short note on following terms with examples:
a) Profile b) Editorial c) Dateline d) Credit line e) Column f) Logo


----------------
Improver/ failure
NEWSPAPER PRODUCTION (Theory & Practice)
BS-III /MA (Previous) 1st Semester 2016
Attempt any three questions            Total marks 30     Time: 1and half hours
Q: 1: Editorializing can manipulate the thinking, how? Elucidate elements of editorial emphasis 
Q: 2: Write short note on following terms with examples:
a) Profile b) Editorial c) Dateline d) Credit line e) Logo
Q: 3: Investigative reporting means proactive rather than reactive.   Explain how it is different from routine reporting
Q: 4:  What is difference between paid and public service contents? Elaborate with examples. 
  

علی پور Alipur

it is short, 600 words are required
Fareeha Masroor 
FEATURE 
فاریحہ مسرور 
رول نمبر : 23
M.A (Previous)
: علی پور 
انسان کا فطری تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچن کی کچھ اچھی یادیں کچھ اچھی باتیںکچھ خوبیاں کچھ دکھ کچھ قہقہے کچھ آنسو کچھ خواب کچھ اسکول لائف کے دن اور اسکول میںپڑھے کچھ اسباق اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے اور بار بار ان میں یا ان جیسی چیزوں میں یا ان جیسی جگہوں میں اپنے بچپن کو تلاش کرنا ہے بچپن ہوا سبق باغ کی سیر میرے اندر کچھ نقوش چھوڑ گیا ہے کہ جب میں سیرو سیاحت کو جاتی ہوں اور کوئی باغ دیکھتی ہوں تو بچپن کاپڑھا ہوا باغ کی سیر یادآجاتا ہے اور اس بات سے اپنے باغ کو مشترک کرتی ہوں مگر ہر بار ہی ایسا ہوا کہ میرے بچپن کا باغ دنیا والے باغ سے اور میری ذہنی محفوظی صلاحیتیوں سے کچھ دیر بعد مشترک ہوجاتا ہے ۔لیکن کچھ دن پہلے میرے اور میرے گھر والے سیر کے لئے ماتلی گئے ،ماتلی شہر جو حیدرآباد سے آگے ہے ویسے تو ماتلی چھوٹا سا شہر ہے لیکن اس کی تاریخ 100سال سے زیادہ پرانی ہے ماتلی پہنچنے کے بعد میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ علی پور کی سیر کے لئے نکلی دوران سفر سب سے پہلے انصاری شگر مل آئی اور دوسرے ہی لمحے گنے کی خوشبو ناک کو چیرتی ہوئی دماغ کی جڑوں میں پہنچ گئی ارد گرد لہلہاتے کھیت دماغ پر اپنے اثرات چھوڑ رہی تھیں کہ ہر بدلتا منظر اک سے دوسرے کو اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں زیر کررہا تھا ماتلی سے 10کلو میٹر دو حیدرآباد چینل کے ساتھ ساتھ سیدھے ہاتھ پر مڑتے ہی درختوں کے دونوں اطراف کی قطاروں نے ہمارا ستقبال کیا علی پور کا نظارہ دیکھتے ہی میں اسکی خوبصورتی میں کھوگئی دراصل علی پور ایک جگہ ہے بے حد خوبصورت جگہ جہاں لوگوں کے صاف ستھرے گھر بنے ہیں علی پور گاﺅں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت اور دلکش باغ کا منظر بھی پیش کرتا ہے بڑی نہر کے متصل دو چھوٹی نہریں اور بڑی نہر کا کا پانی اوپر کو جاکر چھوٹی نہروں میں گرنا جھرنے کا دلکش نظارہ پیش کرتی ہیں اور پھر فروری کی میٹھی میٹھی درخت کی چھاﺅں والی دھوپ اللہ تعالیٰ کی فطرت نمائی کا منظر پیش کررہی ہو درختوں پر بیٹھے پرندے اس خوبصورت وادی کو مزید دلکش بنا رہے تھے وہاں انکی گونجتی اللہ کی حمد و ثناءکی آوازیں کانوں کو دل کو سکون دے رہی تھی۔
حد نظر کھیت آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہے تھے لہلہاتے کھیت گندم کی بالیاں کھیتوں کے گرد چرتی بھینسیں لکڑیوں اور دنبو کے رہوڑ ٹھنڈی ہوا چبھتی دھوپ پرندوں کی حمد و ثناءاور دعوت طعام کچھ ایسے نظارے پیش کررہے تھے جن کو کیمروں میں محفو ظ کیا مگر انکے بیان کے لئے زبان قاصر ہے۔

Practical work under supervision of Sir Sohail Sangi
Media and Communication Studies University of Sindh
 #SohailSangi, #FareehaMasroor, #Alipur,   

لطیف آباد کی لڑکیوں کا یونیورسٹی کی طرف بڑھتا ہوا رحجان Latifabad

Ye article tw nhe lagta. Ap dekhen k article k kia definition hoti hae
ARTICLE
"لطیف آباد کی لڑکیوں کا سندھ یونیورسٹی کی طرف بڑھتا ہوا رحجان"
Fariya Masroor
M.A Previous
Roll # 23 
آرٹیکل  : فاریہ مسرور ایم اے پریوئس فرسٹ سمسٹمر
سندھ یونیورسٹی جامشورو جو کسی تعریف کی محتاج درس گاہ نہیں اور سندھ کی ایک مشہور جامع ہے جس میں پورے سندھ کے طلباء، طلبات علم حاصل کر نے اپنے گھر وں سے گاﺅں سے قصبوں اور شہروں سے آتے ہیں سندھ کی یہ جامع درس گاہ ، درس گاہوں میں اعلیٰ درس گاہ یعنی درس گاہوں کی ماں کا حاصہ حیثیت رکھتی ہے ہر شہر سے آنے والے طلبات کو یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے ہی شہر کے کسی اعلیٰ درس گاہ میں پڑھنے آئے ہوں یہاں کے قابل تعریف لائق اساتذہ اور یہاں کی انتظامیہ یقینً تعریف اور خراج امتیاز کے لائق ہے کہ جنہوں نے دن رات محنت کر کے ایک ایسا ادارہ قائم کردیا ہے جسکی مثال کم و بیش ایشیاءمیں تو ملنے سے قاصر ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ یونیورسٹی اپنے محدود و سائل کو بروحے کار لاتے ہوئے اس حیثیت کی حامل درس گاہ ہوگئی ہے جس کا شمار صفحے اول کی درس گاہوں میں ہوتا ہے یوں تو ہر گاﺅں ہر شہر کی طلباءاور طلبات یہاں علم حاصل کر نے آتے ہیں مگر ان میں خاص طلبات کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سراسر ذیادتی ہوگی طلبات میں سب سے بڑی تعداد لطیف آباد کے 12 یونٹوں میں سے آنی والی طلبات کی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں اگر ان تمام وجوہات کو ہم سلسلہ وار تحریر کریں تو جامعہ سندھ یونیورسٹی کی افادیت اور اسکی انتظامیہ کے بہت سے پہلو سامنے آئیں گے اسکی ایک اہم وجہ یہاں کا علمی ماحول ہے جسکی وجہ سے طلبات جامعہ سندھ کا رخ کر رہی ہیں علم و نیر کے ساتھ ساتھ یہاں کے علمی ماحول میں ایک دوسرے سے علمی مدد ایک دوسرے کا احترام اور عزت قابل ذکر ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اساتذہ اور طالبات کی بہت عزت کر تے ہیں اسی وجہ سے کہ لطیف آباد میں رہنے والی لڑکیاں کسی قسم کا ڈریا شک دل میں لئے بغیر یونیورسٹی کارخ کرتی ہیں ۔ سندھ کی قدیم تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ سندھ میں عورت کو عزت کے اعتبار سے ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اسکی تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ لطیف آباد میں رہنے والی لڑکیاں اپنی تعلیم کے بعد اس ہنر کو استعمال بھی کرتی ہیں جاب کی صورت میں ان تمام ملی جلی وجہوں سے ہی آج یونیورسٹی میں بڑی تعداد لطیف آباد سے آنے والی لڑکیوں کی ہے ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi 
 #GirlsEducation, #Latifabad, #Hyderabad, #SohailSangi,#FareehaMasroor,

Sunday, 3 April 2016

استاد ۽ اديب تيرٿ داس اميداڻي پروفائيل Teerathdas Umedani

 Compare contrast, reference of the specialty of area, to which he belongs, community,create some images, that will enrich ur profile 
Abdul Razaq Kumbhar
استاد ۽ اديب سائين تيرٿ داس اميداڻي
پروفائيل
عبدالرزاق ڪنڀر ، ايم ، اي پريوس رول نمبر، 03

سائين تيرٿ داس اميداڻي علم ۽ ادب سان چاھ رکندڙ شخصيت جو مالڪ آهي. هن نه صرف علم لاءِ پاڻ پتوڙيو آهي پر ان جي تمام گھڻي خدمت به ڪئي آهي. پاڻ تاريخ22 نومبر 1946ع ڌاري ڳوٺ نصير خان لغاري نزد چمبڙ ۾ ڌرتي ماتا جي  دامن ۾ جنم ورتو.  پرائمري تعليم  پنهنجي آبائي ڳوٺ گورنمنٽ اسڪول نصير خان لغاري مان حاصل ڪيائين، چوٿون ۽ پنجون ڪلاس اسلاميه مڊل اسڪول مسڻ وڏي ۾ پڙهيو، جتي عربي سبجيڪٽ وڏي شوق ۽ ذوق سان پڙهيائون. مئٽرڪ سال 1963 ع ۾ سنڌ ماڊل هاءِ اسڪول ٽنڊو الهيار مان پاس ڪيائون، بي، اي 1968ع۽ ايم، اي 1971ع ۾ سنڌ يونيورسٽي مان پاس ڪيائين . پروفيشنل ڪوالفڪيشن جي حوالي سان بي ايڊ ۽ ايم ايڊ اولڊ ڪئمپس حيدرآباد مان  پاس ڪيائون..

سروس لاءِ ٻئي ڪنهن محڪمي کي پسند ڪرڻ بجاءِ تعليم کي ئي پسند ڪيائون، ڇو ته هي  مهان پيشو آهي جنهن سان نه رڳو انسان کي ڄاڻ ملي ٿي پر مان سمان، عزت ۽ آبرو پڻ وڌي ٿي. تاريخ 1964_ 5_12 ع تي گورنمنٽ مڊل اسڪول مبارڪ جروار ۾ انگلش ٽيچر طور ڀرتي ٿيا. ۽ پوءِ ٽنڊو الهيار جي مختلف اسڪولن ۾ پنهنجي علم جا جوهر ڏيکاريندا رهيا، جن ۾ گورنمنٽ مڊل اسڪول پاڪ سنگھار، گورنمنٽ هائير سيڪينڊري اسڪول چمبڙ، هاءِ اسڪول تاج پور،مڊل اسڪول پيارو لنڊ، هاءِ اسڪول سنجر چانگ،  هاءِ اسڪول خير محمد جروار،پاڻ هڪ نان مسلم ٽيچر ٿي ڪري عربي سبجيڪٽ ۾ تمام گھڻي دلچسپي رکندا هئا، سندن قوک مطابق پندرهن سال عربي جو سبجيڪٽ پڙهايائون. ان کان علاوه پاڻ سپر وائيزر به رهيا آهن. آخر ۾ گورنمنٽ هائير سيڪينڊري اسڪول چمبڙ مان  پرنسپل جي عهدي تان رضاڪارانه طور رٽائرمنٽ ورتائين.

سائين تيرٿ داس اميداڻي ماسٽر ٽرينر۽ ٽيوٽر طور به ڪافي خدمتون سرانجام ڏنيون آهن. ادبي ميدان ۾ 1971ع ۾ پير پاتائين، پاڻ نه صرف ڪهاڻيڪار آهن پر تحقيق ۽ تاريخ ۾ به سٺي ڄاڻ رکن ٿا. ادبي خدمتن جي حوالي سان سندن مذهبي ڪاوشون ڪافي آهن، جن ۾، “رنگ مالا ” نالي هڪ ڪتاب لکيو هيائون جيڪو سندر شيوا منڊلي ڪوٽڙي وارن جي طرفان 1972ع ۾ ڇپيو هو. سندن جيڪي ڪتاب شايع ٿي چڪا آهن انهن ۾ شڀ تهوار، گيان پرڪاش، ايشور اپاسنا، آتم درشن، ديوالي پوجن۽ شري ڀڳوان جا 108 نالا، ويد اپديش، سورنهن سنسڪار، ۽آنند ساگر آهن.

ان کان علاوه هندي ٻولي مان به ڪافي ڪتاب سنڌي ٻولي ۾ ترجمو ڪيا آهن جن ۾ شري راما پير، گرڙ پراڻ،  سانوڻ مهاتم، گرو گورک اپديش وغيره شامل آهن. ڪهاڻين جي ڪتابن ۾ ڪوئل جي پڪار، ديوانو دوست،  جي ڪٺيون تڪبير، صندوق ۾ سمنڊ ۽ دل جي دري مان پکي جو پرواز شامل آهن. سائين تيرٿ داس اميداڻي جا وقتن فوقتن مختلف اخبارن ۾ ڪالم، مضمون، تحقيقي مقاله ۽ڪهاڻيون پڻ شايع ٿين ٿيون. پاڻ هڪ سٺا مترجم به آهن آفريڪن ناول “ ٿنگس فال اپارٽ ” سنڌي ۾ ترجمو ڪيو اٿن، هن وقت سائين تيرٿ داس  رگ ويد جو هندي مان سنڌي ۾ ترجمو ڪري رهيا آهن .ميگهواڙن جي تاريخ تي هڪ تمام بهترين ڪتاب “ ميگھ ونس اتهاس” لکي پنهنجي برادري جي مٿان عظيم احسان ڪيو اٿن،  

سائين تيرٿ داس اميداڻي کي پنهنجي ڪيل خدمتن عيوض مختلف ادارن کان ايوارڊ پڻ مليا آهن جن ۾ روحل ادبي اڪيڊمي طرفان ميگھ ونس اتهاس ڪتاب تي مڃتا ايوارڊ ڏنو ويو. ڊويزنل ايجوڪيشن ٽنڊو الهيار طرفان بيسٽ پرفارمنس ايوارڊ ڏنو ويو،  بيسٽ ٽيچر ايوارڊ، کاو علاوه ٽا ئون ڪاميٽي چمبڙ طرفان به کين مختلف ايوارڊن سان نوازيو ويو.
         سندن علمي خدمتن جو باب تاريخ ۾ هميشه زنده رهندو، ڇو ته اهڙا محنتي ۽ فرض شناس استاد تمام گھٽ ملندا آهن

Profile of Teerath Das Umedani byAbdul Razaq Kumbhar, MA previous, 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media and Communication Studies, University of Sindh.

#Profile,  #TeerathDasUmedani,  #Abdul RazaqKumbhar,

Friday, 1 April 2016

حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو Hyderabad

 حیدرآباد  میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علا ج ہو
 shahrukh
شاہ رخ 

پاکستان کا چھٹا اورسندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں ۔
جہاں ہرروز تین لاکھ کلوسے زیادہ کچراپھیکا جاتاہے۔

شہر میں کچرااٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔حیدرآباد میں باکمال افسران کی لاجواب کارکردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑ دئیے ہیں کیو نکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت وصفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں ۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دوبھر کردیا ہے مگر صبح شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوے دار کہیں میسر نہیں ہیں۔ شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہو گی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔

 حیدرآباد بلدیہ نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تاحال ابتر ہے جس پر ذمہ دار ان نے آنکھیں بند رکھی ہیں حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں ناکام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں توسیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کودے دیا گیا ہے۔

 شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو 225 ٹن کچرا 690 روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ۔شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود بااثر سیاسی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں ۔

حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کیلئے عذاب بن گیا ہے اورصفائی پر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہورہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔

 حیدرآباد میں جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر اور شاہراہوں پر کھڑا سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے مگر صفائی کے ذمہ دار ادارے تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہے اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں مگر ماہانہ کروڑ روپے کے اخراجات باقاعدگی سے کئے جارہے ہیں۔

دوسری طرف ایڈمنسٹریٹرکاعہدہ دوماہ سے خالی ہے جو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے کاغذات،رجسٹریاں،فائلوں میں پڑی ہے عوام دربدر پھررہے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں شہر میں صفائی ستھرائی کانظام ناپیدہوکر رہ گیا ہے حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس ۔غیرقانونی ترقیوں اوردیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدوں سے فارغ کرکے صاف اورشفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
shahrukh
M.A(previous)
Roll no #2k16MMC-71 
Under supervision of Sir Sohail Sangi
 #Hyderabad, #shahrukh

ٿر جو اُڀرندڙ ڳائڪ عباس فقير

Profile of Singer Abbas Faqeer 
Akash Hameerani 
ٿر جو اُڀرندڙ ڳائڪ عباس فقير
آڪاش هميراڻي
انسان دنيا جي گولي تي رهندڙ واحد باشعور ۽ باعقل سڏرائيندڙهستي آهي، انسان جيڪو آدجگاد کان وٺي هيستائين جيڪو ڪُجهه ڪندو پيو اچي اهو پنهنجي اندر ۾ ستل شعور کي راحت بخشڻ لاءِ ڪيو آهي، پوءِ اُهو اظهار ناول، شاعري، مصوري، رقص ذريعي ڪري يا موسيقي وسيلي ڪري اهو ماڻهو تي منحصر آهي.
موسيقي ماڻهو جي روح جي غذا آهي، جنهن سان هو اندر ۾ موجود انساني ڳڻن کي وڌيڪ صحتمند بڻائيندي آهي ۽ لاشعوري جي بُک کي پري ڀڄائيندي آهي، موسيقي ڪائنات سان گفتگو ڪرڻ جو پُڻ ناٰءُ آهي. موسيقي ذريعي فطرت کي خوبصورت بڻائي سگهجي ٿو ۽ فطرت جي حسين رنگن کي پسي سگهجي ٿو. اِها موسيقي ئي هئي جنهن وسيلي ٻيجل جنگل ۾ منگل ڪندو هو ۽ سُرندي جي مڌر سُر ۽ ساز سان جانورن کي ميڙي مُٺ ڪندو هو، ۽ ساڳي سرندي جي صدا راءِ ڏياچ کي سِر گهورڻ تي پُڻ مجبور ڪيو.
  موسيقار حسين ۽ حساس دلين جي ترجماني ڪندڙ هوندو آهي، هڪڙو ڪلاڪار پنهنجي فن جي ڪمال سان پٿر دل ماڻهو جي سخت مزاج کي مڌر بڻائي جهومائي سگهي ٿو. ڪلاڪار سماج جو اهم ۽ روح جي ترجماني ڪندڙ فرد آهن.
سنڌ جي حسين ۽ سون ورني سرزمين پُڻ موسيقي جي ميدان ۾ هميشه جيان اڳين صفن ۾ بيٺل آهي، سنڌ جي انهن انيڪ ڪلاڪارن موسيقي جي دنيا ۾ پنهنجو پاڻ ملهايو آهي. انهي موسيقي جي جهان جو اڀرندڙ ستارو، عباس فقير پُڻ آهي. عباس فقير جو جنم ٿر جي مشهور فنڪار حسين فقير جي گهر ۾ 13  مارچ 1994 تي ٿر جي شهر مٺي ۾ ٿيو. عباس فقير پرائمري تعليم گورنمينٽ پرائمري اسڪول ڪنڀار ڪالوني مان حاصل ڪيائين، مڊل جي تعليم گورنمينٽ هاءَ اسڪول نارٿ ڪالوني مٺي مان ڪيائين، گورنمينٽ ڊگري ڪاليج مٺي مان انٽر پاس ڪيائين، هن وقت گورنمينٽ ڊگري ڪاليج مٺي مان بي.ايس.سي ڪري رهيو آهي.
عباس فقير جو خاندان موسيقي سان واڳيل هئڻ ڪري ڳائڻ جو شوق ننڍپُڻ کان ئي ورائي ويو، شروعاتي تعليم دوران اسڪول ۾ منعقد ٿيندڙ نصابي توڙي غير نصابي پروگرامن ۾ ڳائڻ جو پُڻ موقعو ملندو هو. مئٽرڪ پاس ڪرڻ کان پوءَ ترت ئي شام جي وقت مراد فقير ميموريل سنگيت سکيا مرڪز جا ڪلاس وٺندو رهيو. مراد فقير سنگيت سکيا دوران کيس ٿر جي مشهور نوجوان راڳي رجب فقير جي استادي ۾  راڳ جي مختلف قسمن جي مهارت حاصل ڪيائين. ٿر ۾ مختلف سماجي، سياسي، قومپرست ۽ ادبي تنظيمون پنهنجي پروگرام جي شروعات عباس فقير جي سُر ۾ شاه جي وائي کان ڪرائينديون آهن، ته پنڊال ۾ ويٺل ماڻهوءَ سُر جي سحر ۾ وڪوڙجي ويندا آهن.



عباس فقير سنڌ جي ڪيترن ئي شاعرن جي شاعري ڳائيندو آهي، جن ۾ سنڌ جي سرتاج شاعر شاه لطيف، اُستاد بخاري، شيخ اياز، ادل سومرو، اياز گل، تنوير عباسي، حليم باغي، سائينداد ساند توڙي ايوب کوسو شامل آهن.
عباس فقير سادگي پسند نوجوان ڳائڪ آهي، اهو ئي سبب آهي جو نوجوان ۾ وڌيڪ مقبول آهي، ڀيڄ ڀني کان پوءَ مٺي شهر جي خوبصورت پڪنڪ پوائنٽ گڍي ڀٽ تي جڏهن نوجوان جا ٽولا موسم جي مزو وٺڻ لاءَ پنڌ ڪن ٿا تڏهن عباس فقير کي فون ڪري ضرور گهرائن ٿا. نوجوانن جي نگاهن جو مرڪز عباس فقير جڏهن سُر سارنگ جي وائي “دردوندي جو ديس وسي پيو، بوند برهه جي بهار لڳي” جهونگاريندو آهي تڏهن نوجوانن جي دلين جي ڌڙڪن، ڏڪاريل ڏيهه جي مارو ماڻهن سان محبت جو اظهار ڪندي آهي.
عباس فقير، بنا سازن جي جڏهن هم ڪلاس، هم عمر ۽ هم اثر دوستن جي اصرار تي شيخ اياز جو هي غزل “جا خدا کان نه ٿي، جا نه امڪان ۾. ڪالهه کان ڳالهه آهي سا انسان ۾” ڳائيندو آهي ته نوجون انقلابي جذبي سان سرشار ٿي ويندا آهن صحرا ۾ ماٺار پئجي ويندي آهي.
ٿري لوڪ گيت پُڻ عباس جي موسيقي حصو رهيا آهن، شادين مرادين ۾ هو جڏهن به ڳائڻ ويندو آهي ته لوڪ ادب سان چاهه رکندڙ ماڻهو کيس لوڪ گيت ڳائڻ جو چوندا آهن عباس فقير جو پسنديده لوڪ گيت “پايل موري باجي” آهي، عباس اهو گيت هر وقت جهونگاريندو رهندو آهي.
ننڍي عمر ۾ ئي هن ڪلاڪار حسين فقير لائيف ٽائيم اچيومينٽ ايوارڊ ۽ صادق فقير ايوارڊ پُڻ حاصل ڪيا آهن. ڏات جي ڏيهه جي هن اُڀرندڙ ڳائڪ کي اياز جي هنن سٽن سان سُر جي رنگن جي پارت ٿا ڪيون ته،

اها چنگ چارڻ اُمانت اٿئي
متان سر سوا ڪرين ڪي صدائون
 #Thar, #Profile, #AbbasFaqeer,#AkashHameerani
This work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi  in April 2016.

Monday, 28 March 2016

Shaista Parveen Profile by Sana Shaikh

Shaista Parveen  Profile by Sana Shaikh
ثناء شیخ 
رول نمبر55 
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن 
ایم۔اے پریویس 
پروفائل
شائستہ پروین
شائستہ پروین ایک سماجی کارکن اور کامیاب بزنس ویمن کے نام سے جانی جاتی ہیں،آپ ۰۷۹۱ءکو گھوٹکی میں پیدا ہوئی،ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، ابھی دس جماعت مکمل ہی کی تھیں کہ آپ کی بہت چھوٹی عمرمیں شادی کرادی گئی آپ کے والد مجیب علی جو خود ایک استاد رہہ چکے تھے ،انہوں نے آپ کے لئے شریک حیات بھی ایک استاد ہی کو منتخب کیا ،شادی کے کچھ عرصے بعد ہی آپ اپنے شوہر کے ہمراہ سکھرمنتقل ہوگئیں اور اپنی ازدواجی زندگی سکھرمیں گذارنے لگیں،آپ کی دوبیٹیاں ہیں،جن میں سے بڑی بیٹی ڈاکٹری کے شعبہ سے منسلک ہے ،جب
کہ چھوٹی بیٹی فیشن ڈیزائنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے اوربزنس کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں گامزن ہے ۔
شائستہ پروین کے خاوند غفار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا،جو کے ایک پرائیویٹ اسکول میں شعبہ اسلامیات کے ٹیچر تھے ،کچھ وقت ہی گزراتھا کہ آپ کے خاوند روڈایکسیڈینٹ میں دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔آپ نے اپنی زندگی میں ایسا قیامت خیز وقت بھی دیکھا جب دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی اورنہ ہی پہننے کو اچھے کپڑے تھے،اتنے مشکل حالات میں بھی آپ نے بہت دلیری اورہمت سے کام لیااور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خودمحنت کرکے حلال کمائی کو ترجیح دی، انسان چاہے زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو،مگر ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ہنر ضرورہوتا ہے اورایسا ہی ایک ہنر آپ کو وراثت میں ملا،سلائی کڑھائی ہو یا کشیدہ کاری ،سادی کڑھائی کو یا موتی کڑھائی ہر طرح کی ڈیزائننگ میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔
شروعات میں آپ نے گھر گھر جاکر کڑھائی سلائی کے آرڈر لینا شروع کئے پھر آہستہ آہستہ آرڈرگھروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ بڑے بڑے دکانداراورفیکٹریوں سے بھی آپ کو کام ملنے لگا،مسلسل محنت اور لگن سے آپ نے”Hand Embroid“کے نام سے خودایک اکیڈمی شروع کی جہاں ہزاروں کی تعدادمیں گھریلو عورتیں ،لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کاکام سکھایا جاتا تھا۔
بطورسماجی کارکن بھی آ پ نے ہزاروں عورتوں کے مسائل کو نہ صرف حل کیا بلکہ ایساپلیٹ فارم بھی مہیا کیا جہاں وہ ایک خودمختارعورت بن کر ابھرسکیں اسی عزم کے ساتھ آپ نے ”پہچان اپنا ہنر “ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصدصرف عورتوں کو خود مختار بنانا ہی نہیں بلکہ ان عورتوںکے ہنر کو پہچان دلوانا تھا،ہنرمختلف پکوان میں مہارت کا ہو یا سوئیٹر بُننے کا ہو ہر چھوٹے بڑے کام کو فوقیت دی گئی۔اس مہم نے ہزاروں عورتوں کو روزگارمہیا کیا،جو گھربیٹھے باخوبی اپنے کام کو سرانجام دے رہی ہیں۔آپ نے مہم نہ صرف سکھر بلکہ اپنے آبائی شہر گھوٹکی میں بھی شروع کی اور وہاں بھی عورتوں کو وسائل فراہم کئے تاکہ ہر عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکیں،مختلف اقسام کی کڑھائی میں آپ کو مہارت حاصل تھی ہی لیکن ماڈرن زمانے کے فیشن اور ڈیزائننگ سے باخبر رہنے کے لئے آپ نے کراچی جاکر مختلف کورسس بھی کئے اور آج اپنی چھوٹی بیٹی کے ہمراہ ایک کامیاب بزنس ویمن کے طورپر اپنا بوتیک چلارہی ہیں۔
شائستہ پروین اردوزبان میں”زندگی اورتلخ لمحات“ کے نام سے کتاب بھی لکھ رہی ہیںجس میں کچھ لمحون کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان خود کو بہت حقیت سمجھتا ہے،خاص کر ایک گھریلو عورت جسے اللہ نے خدادات صلاحیتوں سے نوازا ہے،اگرہر عورت اپنی اہمیت کو سمجھ لے تو اسے آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
شائستہ پروین ایک خوش مزاج خاتون ہیں،جو عورتوں کے ہر چھوٹے بڑے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مہارت رکھتی ہیں آپ کو صرف عورتوں میں ہی مقبولیت حاصل نہیں بلکہ بڑے بڑے کاروباری آدمی بھی آپ کے ہنر اور کامیابی کی داددیتے ہیں۔آپ نے عورتوں کے ہر مقام میں اپنا رول باخوبی نبھایا ہے اور نبھارہی ہیں اگر آپ کوایک آئیڈیل خاتون کا نام دیا جائے توغلط نہ ہوگا۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

#Profile, #ShaistaParveen, #SohailSangi,  #Sana Shaikh