Wednesday 2 March 2016

حیدرآباد میں بھکاري

آرٹیکل
حیدرآباد میں فقیروں کی بھرمار
  2K16/MMC/50
M.A Previous
رحما  ٹالپر
تاریخ لکھنے والوں نے ھمیشہ غریب  طبقوں کو تاریخ سے علیحدہ کردیا ہے ہمیشہ ایسے طبقے کو عليحدہ سمجھا ہے۔ سماج میں امیر اور غریب کے بیچ میں ایک بڑی دیوار حائل ہے۔ فقیروں کا تعلق بھی ایک ایسے طبقے سے ہے جن کا دارو مدار امیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ہر مذہب میں خیراتی کاموں کو پسند کیا گیا ہے۔

سماج کے فقیروں کا ایک ایسا گروہ جس سماج میں ہر طرف نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب تاریخ میں ان کا ذکرآتا ہے تو امیر طبقے کا امیج بہتر کرنے کی خاطر اس طبقے کو سماج میں رعائیش حاصل کرنے والا  طبقا دکھایا جاتا ہے۔جرمن فلاسفر کا کہنا  ہے کے ہمدردی رحمدلی کے اخلاقی اقدار سماج میں غریب لوگوں کے طبقے کو فوقیت دینا ہے۔فقیروں کے کتنے ہی اقسام ہیں جن میں رومن فلاسفر سینیسا کا کہنا ہے رومن بادشاہت کے زمانے میں بھی پروفیشنل فقیر ہوا کرتے تھے،  اس زمانے میں بھی لوگ بچوں کو اغوا کر کے ان کے بازو یا ٹانگ  توڑ کر ان سے بھیک منگواتے تھے۔بھیک میں ملی ہوئی رقم وہ اپنے بڑوں کو دیتے تھے جس کے بدلے میں وہ صرف ان کو کھانا وغیرہ دیتے تھے  یہ سلسلہ  آج تک جاری ہے۔

کچھ مذاہب میں بھیک مانگنے کو خدا پرستی کا جذبا کہا گیا ہے بدھ دھرم  مرد اور عورت پکشو(فقیر)موجود ہیں۔  جب کے اس مذھب میں عورت کو کوئی ملکیت رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نا ہی معاشرے سے کوئی تعلق۔
ہمارے سماج میں جاگیرداری کلچر کے سبب زیادتی آئی ہے امیر اور دولتمند لوگ غریب اور بھوکے لوگوں کو  کھانا کھلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے وہ معاشرے میں اپنی عزت بڑھانا چاہتے ہیں،  تو طے ہے کے خیرات کے ذریعے نا تو غربت ختم کی جاسکتی ہے اور نا خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
معاشرے میں بھیک مانگنے والا مرض صرف حکومت کی طرف سے تعلیم صحت روزگار اور لوگوں میں فلاحی کاموں میں ذمیداری ڈالنے سے ختم ہوسکتا ہے۔

فقیر ایک ایسی مخلوق ہیں جو ہر پاس پڑوس میں بس اسٹاپ مزاروں پر ہسپتال ہر جگا پر نظر آتے ہیں۔فقیروں میں معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو ہرگذرنے والے سے خیرات مانگتے نظر آتے ہیں۔اسلام میں بھیک مانگے کو سخت نا پسند کیا  گیا ہے۔ بھیک مانگنے والی عورتوں کی بہت تعداد گلیوں روڈوں پر نظر آتی ہے جو اپنے معصوم بچوں کو اٹھاۓ ان کو خیرات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

حیدرآباد شہر میں فقیروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔جو مختلف حصوں میں بٹے ہوۓ ہیں۔ جن میں قاسم آباد، وحدت کالونی، بکرا منڈی، ریلوے اسٹیشن، لطیف آباد، سول اسپتال اور  ہیرآباد مشھور ایریا ہیں۔ 

حیدرآباد علاقے مشہور بلال ہوٹل ہے جس کا مالک ارفان ہے وہ خاص فقیروں کے لیے مخصوص ہے یہاں روزانا چالیس سے پچاس فقیر کھانا کھاتے ہیں۔ روزانا دو  وقت   کا کھانا دیا جاتا ہے۔ کبھی دال ، سبزی  یا کبھی  گوشت  دیا  جاتا ہے۔  ہوٹل پر لوگ خیرات صدقا وغیرہ کے پیسے جمع کراتے ہیں جن سےیہ  ہوٹل چلتا ہے۔ وہیں موجود فقیر جس کا نام پیر محمد ہے جن کا تعلق سبزی منڈی سے ہے اس نے بتایا ک وہ پہلے مذدوری کرتا تھا جس سے وہ تین چار سو روزانا کاماتا تھا اس کے سارے گھر والے کماتے ہیں لیکن وہ اپنی مرضی سے بھیک مانگتا ہے، کیونکے وہ اس کی صحت پحلے والی نہیں جس کی وجا سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوا بھیک مانگنے سے دو تین سو روپے مل جاتے ہیں جن سے وہ اپنی دوایاں وغیرہ لے لیتا ہے۔ 

ایک دوسرے فقیر جوڑے میاں بیوی نے بتایا جس کا نام الاہی بخش  اور بیوی کا نام صفوراں ہے،  انہوں نے کہا کے کچھ سال پہلے ہم خوشحال زندگی گذار رہے تھے عمر کے آخری حصے میں بے رحم اولاد نے دونوں کو نکال دیا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

فقیروں کی تعداد اتنی بھڑ گئ ہے  کے  ان سے تعلیمِ ادارے بھی محفوظ نھیں ہیں آپ سندھ یونیورسٹی کو دیکھ لیں وہاں فقیر اتنے زیادہ ہو گئے  ہیں کے  شاگرد بھی ان سے محفوض نہیں ہیں۔  ہر ڈپارٹمینٹ میں فقیر آتے ہیں اور شاگردوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ اور ان کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں بھیک لینے کے بغیر نہیں چھوڑتے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی فرض ہے ہم پیشاور فقیروں کو پیسے نا دیں کے اس غلط کام کا خاتمہ ہوسکے۔  اس کے علاوہ اپنے آس پاس رہتے ضرورت مندوں کا خیال رکھیں پشاور صفید پوشاک ضرورت مند لوگ ہی اصل اور زکوات کے حقدار ہیں۔ 

پیشوار فقیروں کی زندگی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کی وہ کتنا بھی بھیک مانگ لے پیسہ جمع  کرے پھر بھی وہ زندگی کی اسائیشون سے محروم ہوتے ہیں معاشرے میں  ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےجو اکثر بیماری بھوک اور بدحلی کا شکار ہوتے ہیں 

مہنگائی اور بے روزگاری نےفقیروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے سال دو ہزار دس پاکستان کی تاریخ کی بدترین سیلابہ جس نے پورے ملک کے ساتھ ساتھ سندھ کو متاسر کیا ان میں جیکب آباد ،کشمور ،شکارپور قمبر شدادکوٹ، لاڑکانہ ، دادو، ٹھاٹہ اور سجاعل شہر بہت ذیادہ متاثر ہوئے ان علاقوں کو لوگوں نے سیلاب کے سبب اپنی جانیں بچاتے ہوئے بڑے شہروں کا  رُخ کیا جس میں ؔحیدرآباد شہر سرِپرست ہے تاریخ کے بدترین سیلاب نےغریب لوگوں کے گھربار مال و ملکیت مکمل طور پر تباھ ہوگئے ایک تو پھلے ہی غربت بدحالی اوپر سے سیلاب نے تو لوگوں بے حال کر دیا وہ ابھی بھی حیدرآباد شہر کی سبزی منڈی    سمیت مختلف علاقوں میں بد حالی کا شکار ہے جن میں سے اکثر پیشاور فقیر بن چکے ہیں۔ ۔۔رحما  ٹالپر
 ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

No comments:

Post a Comment