Wednesday 2 March 2016

بے روزگاری کسی معذوری سے کم نہیں Sana Shaikh

Further Revised but sent in word. Plz next time try to send it in inpage format.
ثنا شیخ
رول نمبر
 Sana Shaikh   M.A Previous
Mass Communication

ے روزگاری تقریبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ہر معشیت میں کسی نہ کسی طور پر بیروزگاری کے حالات پائے جاتے ہیں ۔ بے روزگاری کے مسئلے میں زیادہ شدید صورت اس وقت اختیار کی جبکہ 1930ءکے عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہو گئی۔ ان دنوں میں صرف امریکہ میں کروڑوں آدمی بے روزگار ہو گئے۔ اسی طرح پوری دنیا غربت اور بے روزگاری کے جال میں پھنس گئی۔ بے روزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلا بناوٹی بے روزگاری میں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے میں سرمائے کی کمی ہو اس ملک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بے روزگاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسری موسمی بے روز گاری جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہیں یعنی برف اور شوگر ملز وغیرہ ان کے افراد بھی بعد میں بے روز گاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بے روز گاری ہے۔ یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بے روزگاری کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت میں پاور لومنر کا استعمال شروع ہوا تو دستی کھڈی کے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ۔ یوں موجودہ جدید دور میں آٹومیٹک مشینوں کے استعمال سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بے روز گاری شدید ترین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غیر پیداواری کاموں میں استعمال ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی ہے جو بیروزگاری میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔ قدرت نے ہمیں قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ اب ان کاصحیح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ چاہیں تو اپنی زمین سے سونا اگوا سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر افسوس اسی شعبے میں بیس سے پچیس فیصد بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ کیونکہ کم زمین پر زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ یوں بظاہر وہ لوگ کام تو کرتے ہیں مگر بے کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ چار ایکڑ زمین پر دو آدمی بھی کام کر سکتے ہیں۔ جہاں چار آدمی مصروف ہیں یوں دو آدمی مخفی بے روز گاری کا شکار ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہو رہی ہے۔ مثلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرہ جسکی وجہ سے لاکھوں غریب بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ اب ہر عام آدمی بھی بے روز گاری سے وقف ہے فیکٹریوں میں جدید مشینری کے استعمال سے آدمیوں کی ضرورت کم اور مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

یوں ہنر مند آدمی بھی بے روز گار ی کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ پڑھے لکھے افراد ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے سڑکوں پر خاک چھان رہیں ہیں مگر رشوت دینے کے لیے جیب گرم نہیں، سفارش کے لیے تعلقات نہیں ۔یوں مہنگائی کے دور میں تعلیم اور ہنر کی بھی قیمتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔

پرائیویٹ شعبوں میں بھی رشوت پہلے لی جاتی ہے جب جا کر 8000سے10000کی نوکری ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بھی تعلیم میں گریڈ دیکھے جاتے ہیں مگر تنخواہ میں 7500سے 8000تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ہیںاور یوں ایک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب یہ 8000میں سے ایک فرد بجلی کا بل 4000اور گیس کا بل 1000روپے ادا کرے تو وہکیسے باقی پورا مہینہ پیٹ کا دوزخ کو بھرے؟ اسکے باوجود اسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری ہے اگر وہ یہ بھی چھوڑ دیں تو اس مہنگائی کے دور میں ضروریات زندگی کیسے پوری کریں ۔

اور دوسری طرف سرکاری شعبہ جات، ان شعبوں میں نوکری تو ایک عام آ دمی کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے کیوں کہ یہاں سب سے زیادہ رشوت سفارش اور بے ایمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کے پاس سرمایہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لیے پہلے ہی مقرر کر دی جاتی ہیںخواہ ان میں قابلیت ہے یا نہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات میں نوکری کے اشتہارات دیے جاتے ہیں ۔

بے روز گاری کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔جو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوئے اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے دہشت گردی اور بے راہ روی جنم لیتی ہےں ۔ شایداسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں بے روزگاری کی بڑی وجہ انتظامیہ کی نا اہلی ہے کیوں کہ جس ملک کی زمین اتنی زرخیز ہو اور معدنیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی بھی معقول ہو وہاں روز گار کے مواقع پیدا کرنے کوئی مشکل نہیں ہوتے ضرورت صرف موثر منصوبہ بندی اور منظم طریقہ کار کی ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی بجلی جس میں تقریبا ایک عرب روپیہ اور موبائل فون کے بیلنس پر ہی صرف ایک دن کا ٹیکس عربوں روپے بن جاتا ہے اسکے علاوہ دیگر شعبوں سے بھی ٹیکس حاصل کئے جاتے ہیں اگر ان کا استعمال صحیح ہو جائے تو اس ملک میں بے روز گاری تو ایک طرف معاشرے میں غربت کا نام بھی غائب ہو جائے۔ لیکن افسوس ہمارے قومی خزانے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ ان میں جو بھی ڈالا جائے اضافے کی بجائے کمی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بین الااقوامی قرضے اٹھائے جاتے ہیں جن کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ کبھی ٹیکسوں میں اضافہ کر کے تو کبھی مہنگائی کے نام پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ۔ ان تمام خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہماری حکومت قرضوں پر انحصار کرتی ہے پاکستان میں پہلی بار قرضہ 1950ءمیں 57ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے لیا جبکہ 1958ءکو یہ قرضے حاصل کئے گئے یوں آج تک یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ مگر ہمارے شاندار حکمرانوں کے کارنامے دیکھ کر غیر ممالک نے بھی قرضوں سے انکاری کے لیے ٹھوس وجہ تلاش کر لی ہے۔ یوں آج پاکستان صرف ناکامی اور بے روزگاری کے علاوہ معاشی پسماندگی کا بھی شکار ہے۔ کیا اس ملک میں ایسا ایک بھی شخص نہیں بچا جو فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکے ابھی کچھ نہیں بگڑا میں اس ملک کو سنواروں گا؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی نہیں؟ ہمارے سارے حکمران صرف تماشا دیکھنے اور اپنے لیے سوچ رکھتے ہیں؟ کوئی شخص بھی نہیں جو اس سر زمین پاک کی خاطر کچھ کرے؟ اگر ہے تو سامنے آئے ملک کو اس وقت بہت ضرورت ہے سچے جذبے، مخلص رویے اور سچی لگن کی ۔جس کا مقصد صرف ملک کی بھلائی اور ترقی ہو اور ملک کو بے روزگاری کے اندھیروں سے نکال کر روزگار کے راہ پر ڈالناہو۔ جو اپنے بارے میں بعد میںسوچے پہلے ملک کے بارے میں سوچے ۔

Revised. U may see ur revised version how it looks like

کمپوزنگ کی بہت غلطیاں ہیں۔ایک نظر دیکھ لیتے تو یہ غلطیاں دور ہو سکتی تھیں۔ آپ نے ٹاپک کے لئے ایک پرکشش جملہ ” بیروزگاری کسی معذوری سے کم نہیں “ تو لکھ دیا لیکن اس آرٹیکل میں یہ جملہ جسٹیفائی بھی کرو۔

ثنا شےخ ۔۔۔۔۔ اےم اے(پرےوےس) ۔۔۔۔۔ رول نمبر 55
میڈےا اےنڈ کمیونےکشن اسٹڈیز


ارٹےکل
      بیروزگاری کسی معذوری سے کم نہےں
بے روز گاری تقرےبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ہر معےشت مےں کسی نہ کسی طور پر بےروزگاری کے حالات پائے جاتے ہےں ۔بےروزگاری کے مسئلے مےن زیادہ شدید صورت اس وقت اختےار کی جبکہ ۰۳۹۱ ع کہ عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہوگئی ۔ اس کا شکار ہوگئی ۔ ان دونو ں میں صرف آمرےکہ مےں کروڑوں ٓدمی بےروزگار ہوگئے۔ اسی طرح پوری دنےا غربت اور بےروزگاری کہ حال میں پھنس گئی ۔

بےروزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہےں مثلا بناوٹی بےروزگاری مےں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے مےںسرمائے کی کمی ہو اس ملک مےں آبادی کہ بڑہتے ہوےرجحان کہ مطابق سرمائے مےں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بےروزگاری کا شکار ہوجاتے ہےں۔
دوسرے موسمی بےروزگار ی جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہےں یعنی برف اور شگر ملز وغےرہ ان کارخانوں میں کام کرنے والے مسوم ختم ہونے کے بعد بےروزگاری کا شکار ہوجاتے ہےں ۔

تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بےروزگاری ہے یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بےروزگاری کی باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت مےں پاورلومنر کا استعمال شرہع ہوا دستی کھڈے کے لاکھوں مزدور بےروزگار ہوگئے یوں موجودہ دور مےں اٹومےٹک مشےنوں کا استعمال سے بےروزگاری میں شدےد ترےن مسئلے کی صورت اختےار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غےر ضروری وسائل کا غےر پےداواری کاموں مےں استعمال ہے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان کس چعز کہ کمی ھے جو بےروزگاری معں دن دگنی رات چگنی ترقی ھورھی ہے قدرت نے ہمےں قدرتی وسائل سے نوازا ہے اب ان کا صحےح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ معں ہے چاھےں تو اس زمےن سے سونا اگوا سکتے ہےں ۔

بنےادی طہر پر پاکستان زرعی ملک ھے مگر افسوس اسی شعبے مےں بےس سے پچےس فیصد بےروزگاری جنم لےتی ہے کےونکہ کم زمےن پر زےادہ افراد کام کرتے ہےں یوں بظاھر وہ لوگ کام تو کرتے ہےن مگر بےکار ھوتے ہےن کےونکہ چاراےکڑ زمےن پہ دو آدمی ہی کام کرسکتے ہےں جھاں چار آدمی مصروف ھےں وہاں دو آدمی بےروزگاری کا شکار ہےں ۔ جدےد ٹےکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہورھی ہے مچلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرھ جسکی وجہ سے لاکھون غرےب بےروزگاری کا شکار ہوتے ہےں اب ہر عام آدمی بھی بےروزگاری سے واقف ھے فعکٹرےون مےں جدید مشنےں استعمال سے آدمےوں کی ضرورت کم مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رھی ہے۔

ےوں ہنر مند آدمی بھی بےروزگاری کے چنگل مےن پھنس گےا ہے پڑھے لکھے افراد ہاتھون مےں ڈگرےان اتھائے سڑکوں پر شاک چھانرھے ہےں مگر رشوت دعنے کے لئے جےب گرم نھےں سفارش کے لئے تعلقات نھےں ، ےوں تعلےم وار ہنر کی بھی قےمتےں مقرر کر دےگئی ہےں ۔

پرائےوٹ شعبوں مےں بھی رشوت پھلے لی جاتی ہے تب جاکر ۰۰۰۸ سے ۰۰۰۰۱ کی نوکری ہاتھ آتی ہے ۔ ےھاں بھی تعلےم مےں گرےڈ دےکھےں جاتے ھےں مگر تنضواہ ۰۰۵۷ سے ۰۰۰۸ تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ھےن اور ےوں اےک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب آپ ےہ ۰۰۰۸ مےں سے اےک افراد بجلی کا بل ۰۰۰۴ اور گےس کا بل ۰۰۰۱ روپے ادا کرے تو وہ کےسے باقی پورا مھینہ پےٹ کہ دوزض کو بھرے ؟ اسکے باوجود اسی پرائےوٹ ادارے مےں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے وجہ صرف بےروزگاری ہے اگر وہ ےہ بھی چھوڑ دےں تو اس مھنگائی کے دور مےں ضرورےات زندگی کےسے پوری کرےں۔

اور دوسری چرف سرکاری شعبہ جات ،ان شعبوں مےں نوکری تو اےک عام آدمی کے خواب و خےال سے بھی باھر ہے کےونکے ےھاں سب سے زےادہ رشوت سفارش اور بے اےمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کہ پاس سرماےہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لئے پھلے ہی مقرر کر دی جاتی ہےں ان مےں قابل؛ےت ہے ےا نھےں ا سبا تسے کئی سروکار نھےں ہوتا اس کے لبعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات دےجاتے ہےں۔

نےروزگاری کئی معاشرتی بےماریوں کوجنم دےتی ہےجو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوے اور مھنگائی کے ھاتھوں تنگ آکر گعر قانونی کاموں مےں ملوث ہوجاتے ہےں اس لئے دھشتگردی اور بے راہ روی جنم لےتی ہے شاےد اسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئیبھی انسان پےدائیشی مجرم نھےں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کہ زمےدارہوتے ہےں۔

اگر دےکھا جائے تو بےروزگاری جےسے مسئلے کو ہمارے حکمران سنجےدگی سے لےں تو حل ہسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی زمےن بھت ذرخےز ہے اور معدنےات بھی موجود ھے تو با آسانی کہ ساتھ روزگار کہ وسائل پےدا کئے جاسکتے ہےں عام جو ٹےکس دےتی ہے اس مےں سب سے بڑا بجلی پھر گےس اور موبائےل فون کاتو اےک دن کا عربوں رپے ہوجاتا ہے مگر جاتا کہاں ہے ؟ اگر ان ٹےکس کا استعمال سحےح جگہ کےا جائے تو بےروزگاری کو ماضی کاقصہ بننے مےں دےر نھیں لگے گی چلو ٹےکس بھی عوام کے کندھے پہ پر بے وجہ جو بےناالقوامی اپنے خزانے کو وصےع بنانے کہ خاچر قرضے پقرضہ اٹھائے جارھی ہے وہ بھی عام کے کندھوں پر؟

پاکستان کی تارعخ مےں پھلا قرض ۰۵۹۱ مےں لےا گےا تھا جس کا وصول ۸۵۹۱ مےں ہوا مگر اس کہ بعد ےہ سلسلہ جاری ہے اور ےہ صورتحال دےکھ کر بےرونی ممالک نے قرضا دےنا ہی بند کر دےا ۔

ھمارے ملک کو اچھے حکمرانوں کی ضرورت ھے جو ذاتی کاموں کو بعد مےں اور جن کا قسم نامہ اٹھاےا ھے کے ملکی کاموں کو پھلے ترجےع دےں گے۔ ایسا صرف تصور ہی کےا جاسکتا ہے جبکہ حقےقت مےں اس خےال کی تبدےلع بھت دور کی بات ہے۔ ھمارے حکمرانوں کو چاھئے کہ اس پاک سرزمےن کہ خاچر کچھ کرےں اور بےروزگاروں کو پاکستان مےں ہی موجود وسےلات کو استعمال کر کہ روزگار فراھم کےا جا ´ئے تاکہ ان کی دعاﺅںمےں وہ سکون و چےن کی نیند سو سکےں۔


For printing in Rshni we need write-ups in inpage format/ Last para needs more division

ثنا شیخ

رول نمبر:55  
آرٹیکل


بے روزگاری کسی معذوری سے کم نہیں


بے روزگاری تقریبا تمام ممالک کا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ہر معشیت میں کسی نہ کسی طور پر بیروزگاری کے حالات پائے جاتے ہیں ۔ بے روزگاری کے مسئلے میں زیادہ شدید صورت اس وقت اختیار کی جبکہ 1930ءکے عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا اس کا شکار ہو گئی۔ ان دنوں میں صرف امریکہ میں کروڑوں آدمی بے روزگار ہو گئے۔ اسی طرح پوری دنیا غربت اور بے روزگاری کے جال میں پھنس گئی۔ بے روزگاری بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلا بناوٹی بے روزگاری میں اگر ملک میں افرادی قوت کے مقابلے میں سرمائے کی کمی ہو اس ملک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یوں بہت سے افراد بے روزگاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسری موسمی بے روز گاری جو کارخانے موسم کے لحاظ سے چلتے ہیں یعنی برف اور شوگر ملز وغیرہ ان کے افراد بھی بعد میں بے روز گاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر جدید تکنیک کی بے روز گاری ہے۔ یعنی بعض اوقات صنعتی ترقی بھی بے روزگاری کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کپڑے کی صنعت میں پاور لومنر کا استعمال شروع ہوا تو دستی کھڈی کے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ۔ یوں موجودہ جدید دور میں آٹومیٹک مشینوں کے استعمال سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بے روز گاری شدید ترین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کا غیر پیداواری کاموں میں استعمال ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی ہے جو بیروزگاری میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔ قدرت نے ہمیں قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ اب ان کاصحیح استعمال کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ چاہیں تو اپنی زمین سے سونا اگوا سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر افسوس اسی شعبے میں بیس سے پچیس فیصد بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ کیونکہ کم زمین پر زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ یوں بظاہر وہ لوگ کام تو کرتے ہیں مگر بے کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ چار ایکڑ زمین پر دو آدمی بھی کام کر سکتے ہیں۔ جہاں چار آدمی مصروف ہیں یوں دو آدمی مخفی بے روز گاری کا شکار ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی جو کاشتکاری میں استعمال ہو رہی ہے۔ مثلا گندم کاٹنے والی مشین وغیرہ جسکی وجہ سے لاکھوں غریب بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ اب ہر عام آدمی بھی بے روز گاری سے وقف ہے فیکٹریوں میں جدید مشینری کے استعمال سے آدمیوں کی ضرورت کم اور مشینری کی زیادہ مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ 

یوں ہنر مند آدمی بھی بے روز گار ی کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ پڑھے لکھے افراد ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے سڑکوں پر خاک چھان رہیں ہیں مگر رشوت دینے کے لیے جیب گرم نہیں، سفارش کے لیے تعلقات نہیں ۔یوں مہنگائی کے دور میں تعلیم اور ہنر کی بھی قیمتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔

پرائیویٹ شعبوں میں بھی رشوت پہلے لی جاتی ہے جب جا کر 8000سے10000کی نوکری ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بھی تعلیم میں گریڈ دیکھے جاتے ہیں مگر تنخواہ میں 7500سے 8000تک واجبات ادا کرنے کے بعد بچتے ہیںاور یوں ایک انمول نعمت ہاتھ آتی ہے۔ اب یہ 8000میں سے ایک فرد بجلی کا بل 4000اور گیس کا بل 1000روپے ادا کرے تو وہکیسے باقی پورا مہینہ پیٹ کا دوزخ کو بھرے؟ اسکے باوجود اسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری ہے اگر وہ یہ بھی چھوڑ دیں تو اس مہنگائی کے دور میں ضروریات زندگی کیسے پوری کریں ۔

اور دوسری طرف سرکاری شعبہ جات، ان شعبوں میں نوکری تو ایک عام آ دمی کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے کیوں کہ یہاں سب سے زیادہ رشوت سفارش اور بے ایمانی کام آتی ہے وہ آدمی جس کے پاس سرمایہ ہے اور بڑی سے بڑی سفارش ہوتو نوکری ان کے لیے پہلے ہی مقرر کر دی جاتی ہیںخواہ ان میں قابلیت ہے یا نہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد صرف برائے نام اخبارات اور اشتہارات میں نوکری کے اشتہارات دیے جاتے ہیں ۔ 

بے روز گاری کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔جو لوگ جو حالات سے گھبرائے ہوئے اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے دہشت گردی اور بے راہ روی جنم لیتی ہےں ۔ شایداسلئے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ حالات اور معاشرہ اس کی افزائش کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ 

پاکستان میں بے روزگاری کی بڑی وجہ انتظامیہ کی نا اہلی ہے کیوں کہ جس ملک کی زمین اتنی زرخیز ہو اور معدنیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی بھی معقول ہو وہاں روز گار کے مواقع پیدا کرنے کوئی مشکل نہیں ہوتے ضرورت صرف موثر منصوبہ بندی اور منظم طریقہ کار کی ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی بجلی جس میں تقریبا ایک عرب روپیہ اور موبائل فون کے بیلنس پر ہی صرف ایک دن کا ٹیکس عربوں روپے بن جاتا ہے اسکے علاوہ دیگر شعبوں سے بھی ٹیکس حاصل کئے جاتے ہیں اگر ان کا استعمال صحیح ہو جائے تو اس ملک میں بے روز گاری تو ایک طرف معاشرے میں غربت کا نام بھی غائب ہو جائے۔ لیکن افسوس ہمارے قومی خزانے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ ان میں جو بھی ڈالا جائے اضافے کی بجائے کمی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بین الااقوامی قرضے اٹھائے جاتے ہیں جن کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ کبھی ٹیکسوں میں اضافہ کر کے تو کبھی مہنگائی کے نام پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ۔ ان تمام خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہماری حکومت قرضوں پر انحصار کرتی ہے پاکستان میں پہلی بار قرضہ 1950ءمیں 57ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے لیا جبکہ 1958ءکو یہ قرضے حاصل کئے گئے یوں آج تک یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ مگر ہمارے شاندار حکمرانوں کے کارنامے دیکھ کر غیر ممالک نے بھی قرضوں سے انکاری کے لیے ٹھوس وجہ تلاش کر لی ہے۔ یوں آج پاکستان صرف ناکامی اور بے روزگاری کے علاوہ معاشی پسماندگی کا بھی شکار ہے۔ کیا اس ملک میں ایسا ایک بھی شخص نہیں بچا جو فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکے ابھی کچھ نہیں بگڑا میں اس ملک کو سنواروں گا؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی نہیں؟ ہمارے سارے حکمران صرف تماشا دیکھنے اور اپنے لیے سوچ رکھتے ہیں؟ کوئی شخص بھی نہیں جو اس سر زمین پاک کی خاطر کچھ کرے؟ اگر ہے تو سامنے آئے ملک کو اس وقت بہت ضرورت ہے سچے جذبے، مخلص رویے اور سچی لگن کی ۔جس کا مقصد صرف ملک کی بھلائی اور ترقی ہو اور ملک کو بے روزگاری کے اندھیروں سے نکال کر روزگار کے راہ پر ڈالناہو۔ جو اپنے بارے میں بعد میںسوچے پہلے ملک کے بارے میں سوچے 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

No comments:

Post a Comment