Sunday 6 March 2016

لوگ کیا کہیں گے

Revised
 still composing mistkaes, Needs proper prargraphing
 ثناءشےخ
رول نمبر:۵۵
مےڈےا اےنڈ کمےونےکےشن
اےم اے (پرےوےس)
 فےچر
﴾لوگ کےا کہےں گے﴿ 
کہنے کو تو یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔مگر دیکھا جائے تو ےہ تین الفاظ اور اےک سوال جو روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شخص کی زندگی ان کی خواہشات ،اور آرمانوں کو کچل رہا ہے ۔ایک ایسا سوال جہاں انسان کی ہر سوچ مفلوج ہوجاتی ہے ا نسان سوچتا بہت کچھ ہے مگر کرتا وہ ہی ہے جو عجیب الخلقت اس سے کروانا چاہتی ہے مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا،رائے ذاتی ہو ےا سماجی ،پر سوال ایک ہی ”کیا کہیں گے لوگ“ آخر کیا کہیں گے لوگ ہم کیوں سوچتے ہےںانسان خود سے زیادہ کیوں لوگوں کے خیالات پرمبنی ہے ےقےنا آپ نے بھی بچپن میں جب کبھی کوئی نیا کام کرنے کا ارادہ کیا ہوگا تو گھر سے ےہ جملہ ضرور سننے کو ملا ہوگا © © © © © © ”کہ لوگ دےکھےں تو کےا کہیں گے؟ ثقافت اور تہذیب کے نام پر کتنے ہی لوگوں کی زندگیوں کا فےصلہ سنا دےا جاتا ہے، کتنے ہی قصبے،گاﺅں،گوٹھ ہےںجہاں نہ لڑکی باہر پڑھنے جا سکتی ہے نہ اپنی مرضی سے اسے شادی کرنے کا کوئی حق ہے ۔آج بھی برادری اور ذات پات کے نظام نے ہزاروں لڑکےوں سے ان کے خواب ،ان کی آزادی چھین لی ہے اور وجہ کےا ؟ صرف ایک سوال لوگ کیا کہیں گے؟
میرے قصے میں یہ ہر اس کام کے لئے کہا جاتا تھا جو مےرے محلے مےں ےا تو نےا ہوتا ےا انوکھا چاہے وہ قمیض شلوار کے بجائے پینٹ شرٹ پہنے کی ہو ےا ہیرا سٹائل کو تبدیل کرنے سے لے کر اسٹیج پر پرفارمنس دینے سے لیکر اپنی بہنوں کے ساتھ باہر گھومنے جانے © ،غر ض ہر اس کام کے متعلق جو باقی دنیا نہ کرتی ہو۔
خیر ایسے بے شمار کام کے لئے بھی، جن سے مجھ کو ڈرایا گےا کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن ایسے بھی بیشمار کام تھے جو نہیںکر سکی ان لوگوں کے ڈر سے، اب افسوس اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ مجھے زندگی کے سارے سفر مےںوہ لوگ کہیں نہ ملے۔
ہمارا معاشرہ ےقینا تبدیلی سے ڈرتا ہے، اب کونسی تبدیلی؟ ےہ الگ بحث ہے مگر ڈرتا ہے، اورہمےں وہ لوگ ڈراتے ہیں جو خود ہم سے ڈرتے ہےں اور یہ چاہتے ہیںکہ ہم بھی انہی کی طرح سوچیں۔صدیا ں گزر گئی قدیم روایتی معاشرہ آج ماڈرن ہو گیا ہے مگر یہ روایت آج بھی سینہ بہ سےنہ لوگوں کے ذہن کو ”کےا کہےں گے لوگ“ سے آگے بڑھنے نہےں دیتی۔اےک رواج ہے جو زمانہ قدیم سے عمل مےں ہے۔اب سوشل مےڈیا کی ہی مثال لے لےں، یہاں ہر شخص آپ کو اپنے خیالات اور سوچ فروخت کرنے کے چکر میں ہے آپ اگر مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کریں تو لوگ آپ کو طالبان سے جھوڑ لیتے ہیں،بلوچستان کے مسائل کی بات کریں تولوگ آپ کو محب وطن سمجھنے سے کتراتے ہےں،ملالہ کی بات کریں تو لوگ آپ کو ایجنٹ کہنے لگتے ہیں نہ جانے کتنی اور مثالیںہےں۔تبدیلی لانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس تبدیلی کو عمل مےں لانے کی بات کوئی نہیں کرتا۔تنقید کرنے والے تو بہت ہےں مگر سراہنے والے بہت کم ۔آپ جتنا بھی اچھا کام کریں یہ ممکن ہی نہیں کہ اس معاشرے مےں ایسے لوگ آپ کو نہ ملیںجو آپ کے کام مےںنقص نہ نکالیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا اور بنگلہ دیش،یہ تین بڑے ترقیاتی ممالک جہاں آج بھی ےہ سوال ہماری نوجوان نسل،جو آنے والے وقت مےں ہمارے ملک کا سرمایہ ہےں، سرے عام ان کی خواہشات کا گلہ گھوٹ رہا ہے۔کتنے خواب ہیں جو ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہےںاگر ہم اپنے ملک پاکستان کا موازنہ غیر ممالک سے کرےں تو وہاں کا ہر نوجوان خودمختار ہے جو وہ چاہتے ہیں وہ ہی کرتے ہیں،بغیر سوچے کہ مےرے والدین کیا کہیں گے؟ میرے پڑوسی کےا کہیں گے؟مےرے دوست احباب کےا کہیں گے؟جہاں ہم ہر شعبے مےں چاہے وہ صنعت و حرفت کا معالعہ ہو ےا علوم و فنون کا،ہر کام میں ہم ان کے شانہ بشانہ چلنے کے لےے تیار ہیںتو یہ سوچ کیوں ختم نہیں کرسکتے۔ جب آنے والی نوجوان نسل سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ ڈر ہے ےا خوف یا کوئی رواج ہے یا روایت جو ہر انسان کچھ کرنے سے پہلے کچھ بننے سے پہلے اسی سوال کے بارے مےں سوچتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اگر ڈر ہے تو سوال کا جو اب کیا ہے اور اس سوچ کو ختم کسے کیا جا سکتا ہے؟ اس پہ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ چیز معاشرے میں اےک مرض کی طرح بن کے رہ گئی ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر تھوڑا مشکل ہے اسکے لئے نوجوان یا آنے والی نسل یعنی بچوں کو نصاب مےں یہ چیز پڑھائی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی مےں اپنے لئے ،اپنے خاندان کے لئے اوراپنے ملک کے لئے بہتر سے بہترثابت ہوں۔جو آپ ہیں ہمیشہ وہ ہی رہےں بغیر لوگوں کی پرواہ کئے ہر وہ کام کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں کیوں کہ زندگی بہت چھوٹی ہے اگر لوگوں کے بارے مےں سوچتے رہینگے تو منزل کہی پیچھے چھوٹ جائے گی اور تنقید کرنے والے آگے بڑھ جائیں گے پھر کسی کے خوابوں کودفن کرنے ، چھوڑ دیں سوچنا کہ لوگ کےا کہیں گے ؟ وہ کہتے ہیں نا :
      کچھ تو لوگ کہیں گے،لوگوں کاکام ہے کہنا، 

   چھوڑو بےکار کی باتےں ،کہیں بیت نہ جائے رینا، 


Last warning: if u did not send it with proper file name, it will be rejected. See composing mistakes, these are same which i have pointed out in ur earlier piece. U mixed up  ے with ی. It matters when it is converted in word for web site and some times during editing create problem 
 Referred back

 ثناءشےخ
رول نمبر:۵۵
مےڈےا اےنڈ کمےونےکےشن
اےم اے (پرےوےس)
 فےچر
   لوگ کیا کہیں گے ﴾  لوگ کےا کہےنگے﴿ 

کہنے کو تو ےہ تےن الفاظ کا مجموعہ ہے۔مگر دےکھا جائے تو ےہ تےن الفاظ اور اےک سوال جو روز کہےں نہ کہےں کسی نہ کسی شخص کی زندگی ان کی خواہشات ،اور آرمانوں کو کچل رہا ہے ۔اےک اےسا سوال جہاں انسان کی ہر سوچ مفلوج ہوجاتی ہے ا نسان سوچتا بہت کچھ ہے مگر کرتا وہ ہی ہے جو عجےب الخلقت اس سے کروانہ چاہتی ہے مسئلہ چھوٹا ہو ےا بٹرا،رائے ذاتی ہو ےا سماجی ،پر سوال اےک ہی ”کےا کہےنگے لوگ“ آخر کےا کہےنگے لوگ ہم کےوں سوچتے ہےںانسان خود سے زےادہ کےوں لوگوں کے خےالات پرمبنی ہے ےقےنا آپ نے بھی بچپن مےں جب کبھی کوئی نےا کام کرنے کا ارادہ کےا ہوگا تو گھر سے ےہ جملہ ضرور سننے کو ملا ہوگا © © © © © © ”کہ لوگ دےکھےں تو کےا کہےنگے؟ ثقافت اور تہذےب کے نام پر کتنے ہی لوگوں کی زندگےوں کا فےصلہ سنا دےا جاےا ہے، کتنے ہی قصبے،گاﺅں،گوٹھ ہےںجہاں نہ لڑکی باہر پڑھنے جا سکتی ہے نہ اپنی مرضی سے اسے شادی کرنے کا کوئی حق ہے ۔آج بھی برادری اور ذات پات کے نظام نے ہزاروں لڑکےوں سے ان کے خواب ،ان کی آزادی چھےن لی ہے اور وجہ کےا ؟ صرف اےک سوال لوگ کےا کہےنگے؟
مےرے قصے مےں ےہ ہر اس کام کے لےے کہا جاتا تھا جو مےرے محلے مےں ےا تو نےا ہوتا ےا انوکھا © © © چاہے وہ قمےض شلوار کے بجائے پےنٹ شرٹ پہنے کی ہو ےا ہےرا سٹائل کو تبدےل کرنے سے لے کر اسٹےج پر پرفارمنس دےنے سے لےکر اپنی بہنوں کے ساتھ باہر گھومنے جانے © ،؛غر ض ہر اس کام کے متعلق جو باقی دنےا نہ کرتی ہو۔
خےر اےسے بے شمار کام کے لےے بھی، جن سے مجھ کو ڈراےا گےا کہ لوگ کےا کہےنگے لےکن اےسے بھی بےشمار کام تھے جو نہےںکر سکی ان لوگوں کے ڈر سے، اب افسوس اس لےے زےادہ ہوتا ہے کہ مجھے زندگی کے سارے سفر مےںوہ لوگ کہےں نہ ملے۔
ہمارا معاشرہ ےقےنا تبدےلی سے ڈرتا ہے، اب کونسی تبدےلی؟ ےہ الگ بحث ہے مگر ڈرتا ہے، اورہمےں وہ لوگ ڈراتے ہےں جو خود ہم سے ڈرتے ہےں اور ےہ چاہتے ہےںکہ ہم بھی انہےں کی طرح سوچےں۔صدےاں گزر گئی قدےم رواےتی معاشرہ آج مڈرن ہو گےا ہے مگر ےہ رواےت آج بھی سےنہ بہ سےنہ لوگوں کے ذہن کو ”کےا کہےنگے لوگ“ سے آگے بڑنے نہےں دےتی۔اےک رواج ہے جو زمانہ قدےم سے عمل مےں ہے۔اب سوشل مےڈےا کی ہی مثال لے لےں، ےہاں ہر شخص آپ کو اپنے خےالات اور سوچ فروخت کرنے کے چکر مےں ہے آپ اگر مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کرےں تو لوگ آپ کو طالبان سے جھوڑ لےتے ہےں،بلوچستان کے مسائل کی بات کرےں تولوگ آپ کو محب وطن سمجھنے سے کتراتے ہےں،ملالہ کی بات کرےں تو لوگ آپ کو اےجنٹ کہنے لگتے ہےں نہ جانے کتنی اور مثالےں ہےں۔تبدےلی لانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس تبدےلی کو عمل مےں لانے کی بات کوئی نہےں کرتا۔تنقےد کرنے والے تو بہت ہےں مگر سراہنے والے بہت کم ۔آپ جتنا بھی اچھا کام کریں ےہ ممکن ہی نہےں کہ اس معاشرے مےں اےسے لوگ آپ کو نہ ملےں جو آپ کے کام مےںنقص نہ نکالےں۔
سوچنے کی بات ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ انڈےا اور بنگلہ دےش،ےہ تےن بڑے ترقےاتی ممالک جہاں آج بھی ےہ سوال ہماری نوجوان نسل،جو آنے والے وقت مےں ہمارے ملک کا سرماےہ ہےں، سرے عام ان کی خواہشات کا گلہ گھوٹ رہا ہے۔کتنے خواب ہےں جو ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دےتے ہےںاگر ہم 
اپنے ملک پاکستان کا موازنہ غےر ممالک سے کرےں تو وہاں کا ہر نوجوان خودمختار ہے جو وہ چاہتے ہےں وہ ہی کرتے ہےں،بغےر سوچے کہ مےرے والدےن کےا کہےنگے؟ مےرے پڑوسی کےا کہےنگے؟مےرے دوست احباب کےا کہےنگے؟جہاں ہم ہر شعبے مےں چاہے وہ صنعت و حرفت کا معالعہ ہو ےا علوم و فنون کا،ہر کام مےں ہم ان کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لےے تےار ہےںتو ےہ سوچ کےوں ختم نہےں کرسکتے۔ جب آنے والی نوجوان نسل سے ےہ سوال کےا گےا کہ ےہ ڈر ہے ےا خوف ےہ کوئی رواج ہے ےا رواےت جو ہر انسان کچھ کرنے سے پہلے کچھ بننے سے پہلے اےسی سوال کے بارے مےں سوچتا ہے کہ لوگ کےا کہےنگے؟ اگر ڈر ہے تو سوال کا جو اب کےا ہے اور اس سوچ کو ختم کسے کےا جا سکتا ہے؟ اس پہ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ےہ چےز معاشرے مےں اےک مرض کی طرح بن کے رہ گئی ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر تھوڑا مشکل ہے اسکے لےے نوجوان ےا آنے والی نسل ےعنی بچوں کو نصاب مےں ےہ چےز پڑھائی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی مےں اپنے لےے ،اپنے خاندان کے لےے اوراپنے ملک کے لےے بہتر سے بہترثابت ہوں۔جو آپ ہےں ہمےشہ وہ ہی رہےں بغےر لوگوں کی پرواہ کےے ہر وہ کام کرے جو آپ کرنا چاہتے ہےں جو آپ بننا چاہتے ہےں کےوں کہ زندگی بہت چھوٹی ہے اگر لوگوں کے بارے مےں سوچتے رہےنگے تو منزل کہی پےچھے چھوٹ جائے گی اور تنقےد کرنے والے آگے بڑھ جائے گے پھر کسےی کے خوابوں کودفن کرنے ، چھوڑ دےں سوچنا کہ لوگ کےا کہےنگے ؟ وہ کہتے ہےں نہ :
      کچھ تو لوگ کہےنگے،لوگوں کاکام ہے کہنا، 
   چھوڑو بےکار کی باتےں ،کہی بےت نہ جائے رےنا، 

No comments:

Post a Comment