Friday 4 March 2016

تھرمیں قحط: موت نے غریبوں کا گھر دیکھ لیا Hoor Khan

Hoor Khan
تھرمیں قحط: موت نے غریبوں کا گھر دیکھ لیا
نام ۔ حور خان ۔ ریوائیزڈ۔
رول نمبر۔۷۲
ؑٓٓ ٓ آرٹیکل۔۔
قحط کا کیا مطلب ہے؟قحط کا مطلب ہے ۔کھانے اور پانی کی ایسی کمی جس کی وجہ سے انسان اور جانور بھوک اور پیاس سے مرنے لگیں۔ قحط سے مرنے والاحادثے کا شکار ہونے والے کی طرح ایک جھٹکے سے نہیں مرتا قحط کا شکار ہونے والے کا دم ایک دم نہیں نکلتا بلکہ وہ ہر دم موت کے قریب ہوتا ہے ہر لمحہ ایک تڑپ اس کے وجود میں دوڑ رہی ہوتی ہے وہ زندہ رہنے کی ہر کوشش میں ناکام ہوتا چلا جاتا ہے وہ زندہ رہنے کی کوشش میں سب سے پہلے پاکی اور ناپاکی میں فرق بھولتا ہے پھر صاف اور گندے کی تمیز سے آزاد ہوجاتا ہے با لآخر رشتوں کی محبت اور احساس کھو بیٹھتا ہے ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک ماں اپنے ہی بچے کو بھوک مٹانے کے لئے چیر پھاڑدے ۔

ضلع تھرپارکر کی ۰۷ فیصد آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور غربت کے مارے یہ لوگ قحط کا شکار ہوچکے ہیںکتنے ہی معصوم بچے عدم خوراکی کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ایک بار کسی بڑے لیڈر نے حکومت سندھ کو ۰۶ہزار بوری گندم فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی اور امداد دی جانے والی گندم کا اک اک دانہ متاثرین تک پہنچ گیا تو ۴کلو گندم ایک فرد کو ملے گی اور یہ ۴ کلو گندم متاثرینِ قحط کو اگلے قحط تک چلانی پڑے گی یعنی ایک سال تک ہمارے سندھ کے حکمرانوں کو اعوام کی ضرورت صرف الیکشن میں پڑھتی ہے وہ بھی ووٹ لینے کے لئے کچھ دینے کے لئے نہیں، جیسا کہ دودھ دینے والے مویشی کو بھی ان کا مالک دانہ صرف دودھ کی لالچ میں ہی دیتا ہے کچھ یہ ہی حال ہمارے آج کے حکمرانوں کا بھی ہے بلکہ ان جانوروں سے کیے جانے والے سلوک سے بھی بد تر رویہ اختیار کرتے ہیں اپنے ووٹرز کے ساتھ ۔

تھر پارکر میں عورتیں بھوک اور غذائی قلت کے با عث مرے ہوئے بچے جنم دے رہی ہیں تھر پار کر میں بارش کی کمی کا قصوروار حکومت کو نہیں بنا یا جائے ۔حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیا یہ جواب قا بلِ قبول ہے۔۔؟انہوں نے کہا کہ محکمہءسندھ بیس سال سے پیپلزپارٹی کے پاس نہیں تھا۔تا ہم تھر میں اگر روزانہ ۲ بچو µں کی موت ہوتی ہے تو ملک بھر میں ۶۰۰ بچے µ روزانہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔لیکن اس پر اتنا شور نہیں کیا جاتا۔ جبکہ میڈیا میں تھر کی صورتحال کے حوالے سے آنے والی رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں۔
¾ ¾ دنیا کی اکثر این جی اوز تھر پار کر سے واقف ہونگی ان این جی اوز کے بورڈ تو جابجا نظر آتے ہیں لیکن زمین پر چند ہی کا کام دیکھنے کو ملتا ہے بیرونِ پاکستان سے امداد لینے والی این جی اوز کے لئے تھر پار کر ایک زندہ مرتبہ ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ دنیا کو تھر کا مرتبہ سنا کر امداد ضرور حاصل کریں تھر پارکر میں جس انتہا درجے کی غربت اور نا خواندگی ہے اس کا مقابلہ کرنا غیر سرکاری اداروں کے بس کا
 کام نہیںہے پا کستان میں اتفاق فی سبیل اللہ کر نے والوں کے دم سے ان غر یبوں کا کچھ نہ کچھ سہارا ہو جاتا ہے تھر پارکر میں معمولی سی تبدیلی کے لئے بھی حکومتی وسائل اور توجہ کی بھر پور ضرورت ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر لاتعلق ہے بہت اچھا ہو کہ صاحبِ خیر خود جا کر متاثرین کی مدد کریں اور ان کے حالات سے آگاہی حاصل کریںاگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو الخدمت کے ذمہ یہ کام کردیںکہیں ایسا نا ہو کہ حشرِ قیامت اللہ ہم سے پوچھے کہ " میرا بندہ بھوکا تھا تو نے اسے کیوں نہیں کھلایا میرا بندہ پیاسا تھاتو نے اسے پانی کیوں نہیں پلایا"
"بموں سے لوگوں کو مارنا دہشت گردی کہلاتا ہے
اور بھوک سے مارنا جمہوریت"
 
Practical work Under supervision of Sir Sohail Sangi 

No comments:

Post a Comment