Sunday 6 March 2016

نظر وہم یا حقیقت

We have no word composing system. In urdu we need composed in inpage.  Next time, piece composed in word will not be accepted
درشھوار   مرزا  
Revised
2k16/MMC/19
MA Previous 
فیچر :   نظر وہم  یا حقیقت
         نظر بد  وہم یا حقیقت  ایک ایسا موضوع ہے،جس کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نظر بد کی دراصل کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ محض وہم ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین  رکھتے ہیں۔
"نظر لگ گئی"، "لگادی نہ نظر"، نظر، نظر، نظر، یہ وہ جملے ہیں جو ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر سُننے کو ملتے ہیں۔
نظر بد کے سب سے آسان شکار بچے ہوتے ہیں جن کی معصومانہ حرکتیں ، شرارتیں دل  کو ایسے لُبھاتی ہیں کہ انہیں بے اختیار ماں باپ اور چاہنے والوں کی نظر بھی لگ جاتی ہے۔

کچھ ایسے ہی میرا ایک کزن نظر بد کا شکار ہو گیا تھا ۔وہ نہایت نیک  اور ہوشیار  اور پوزیشن ہولڈر ہے۔ وہ جب اسکول جانے کے لیے اُٹھتا تو اس کی طبیعت اچانک خراب ہو جاتی تھی یا اسکول سے فون آجاتا تھا کہ  آپ  کہ بچے  کی طبیعت خراب ہو گئی ہے آپ اُسے آکر لے جائیں اور اسکول کا ٹائم گزرنے کے بعد اس کی طبیعت ٹھیک ہو جاتی تھی اسے جسم کے بعض حصوں میں شدید تکلیف شروع ہو جاتی تھی والدین نے کافی ڈاکٹرز کو دکھایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ایسا لگاتار چھ مہینے تک چلتا رہا جس کی وجہ سے اس کی پڑھائی پر کافی بُرا اثر  پڑا۔ آخر کار کچھ عامل حضرات سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سخت نظرِ بد کا اثر بتایا پھر روحانی علاج شروع کیا گیا جس سے کافی فائدہ ہوا اب وہ بلکل ٹھیک ہے۔

نظر ایک زہر ہےکہ حق تعالیٰ نے بعض لوگوں کی آنکھوں میں اس کو رکھا ہے جیسا کہ بچھوں کے  ڈنگ  اور سانپ کی زبان میں زہر رکھا گیا ہے اسی طرح آدمی کی آنکھ میں بھی نظر مقرر کی گئی ہے اور یہ نہ جانے کہ نظر غیر کی لگا کرتی ہےاپنی  نہیں لگتی بعض وقت اپنی ہی نظر لگا کرتی ہے اور یہ جانے کہ فقط انسانوں ہی پر لگتی ہے دوسری چیز پر نہیں لگتی  ہے    ،  بلکہ نظر کا شکار جانور، کھیتی، باغ، دولت اور اسباب، ہر وہ چیز جو خوبصورت اور فائدہ  ہو نظر کا شکار ہو جاتی ہے۔
نظر صرف انسان کی ہی نہیں لگتی بلکہ آسمانی اور نادیدہ مخلوق کی بھی لگتی ہے۔
نظر بد جسے زخمِ چشم یا نظر لگنا بھی کہا جاتا ہے ،اس کا تصور قدیم زمانے سے مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔   عرب میں ایسے لوگ موجود تھے جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔

 اور ان کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کرکے نظر لگاتے اور جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے، ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہو جاتی۔ نظر بد کا مسئلہ عقلی لحاظ سے ناممکن نہیں ہے ،کیونکہ آج کے دور میں یہ بات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ،اگر آنکھوں میں ایک خاص قسم کی مقناطیسی قوت پر مہارت حاصل کر لی جائے تو آدمی اس کے ذریعے سے دوسروں کے ذہن اور خیالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ ایسے افراد کو جانتے ہوں گے جو آنکھوں کی اس توانائی کے ذریعے انسانوں، جانوروں یا کسی بھی شے پر اثر انداز ہوتے ہیں، لہٰذا نظر بد کا انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی نظر بد کا وجود عقل و علم کے منافی ہے۔
 باقی رہی یہ بات کہ نظر کا لگنا اچھا لگنے یا خوب صورتی کی وجہ سے ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ نظر لگانے والے کی نظر میں اگر حسد یا دشمنی ہو تو تب بھی نظر لگتی ہے ۔

 بعض لوگ جن کی نظر لگتی ہے ان کا بیان ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے حرارت نکلتی ہے،نظر اس وقت لگتی ہے جب کسی کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اور اس میں حسد کا شائبہ ہو اور نظر لگانے والا گندی فطرت والا ہوتا ہے، جیسے زہریلے سانپ ہوتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر معشوق کو عاشق کی نظر لگ جاتی ، لہٰذا یہ نظر کا لگنا حسد ، بغض ، کینہ اور دشمنی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔

مان لیا  جائے کے  نظر کا لگنا   حق  ہے تو  اسکا  علاج  کیا ہے او ر  اس سے کیسے بچا جائے۔  اصل میں نظر کو دور کرنے کے بہت سے طریقے مختلف علاقوں میں رائج ہیں ۔

نظر لگنے او راس سے بچنے کیلئے  عرب میں جو طریقہ رائج تھا اور  ہے کہ جس شخص کی نظر لگتی ہے اس کے ہاتھ، پاؤں، ٹخنے، کہنیاں وغیرہ دھلوا کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے  ہیں جس کو نظر لگی ہوتی  ہے  اور اس کو وہ لوگ شفاء کا ذریعہ سمجھتے  ہیں ۔

مگر ہمارے پاس  نظر کے علاج  کے لیے   عجیب   وغریب طریقے  اپنائے جاتے  ہیں ۔ جیسے کہ بعض لوگ لو بان اور نیرہ ( خاص پودا) کے دھویں سے دھونی دیتے ہیں ، بعض لوگ پھٹکری سے نظر کا علاج کرتے ہیں۔
 کچھ لوگ لال والی سات عدد مرچیں لیتے ہیں اور اس پر چار قل پڑھتے ہیں اور جس کو نظر لگی ہوتی ہے اس کی جسم یا سر یا چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور پھر اسے آگ پر جلا دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں  نظر  کا سب سے زیادہ    کامیاب  مانے جانے والا   علاج    کالا داگھا  اور   چپل   ہیں  ،   اگر  کسی  انسان  کو   نظر  لگ جائے  تو      کسی فقیر  سے   کالے  دھاگے  پر  دم  کرواکے   اسکو   گلے  میں  پہنائی   جاتی ہے  یا  ہاتھ  پر باندھ   دیا جاتا  ہے  ۔اور  اگر  کسی  جانور      کو نظر  لگجائے   تو   کبھی   کالا  داگھا   کبھی    چپل    اسکے   گلے    لٹکادیا      جاتا      ہے۔ یہی  وجہ  ہے کے  ہر  ۳     سے ۲  افراد   میں   کالا دھاگا  پایا     جاتا ہے  اور شہر میں   ہر      ۱۰  سے     ۸ گاڑیوں     کے   اور دیہاتوں میں   بھینس  بکریوں  کے  ساتھ    چپل  لٹکتا    ملتا    ہے۔
نظر بد کے اثرات پر یقین رکھنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم بلاوجہ شک و شبہات میں مبتلا ہو کر دوسروں کو ہر پریشانی کا مورد الزام قرار دے کر باہمی تعلقات کو خراب کریں۔ اور باہمی طور پر الزام در الزام یا لعن طعن کا سبب بنیں اور نہ ہی نظر بد کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں بے ہودہ کاموں ،طریقوں کی پناہ لینی چاہیے اور نہ ہی اس سلسلے میں پیروں اور جعل ساز تعویذ فروشوں کے جال میں پھنس کر اپنا مال و اسباب اور ذہنی سکون برباد کرنا چاہیے۔

علماء کرام نے بتایا کہ نظر لگنا برحق ہے نظر بد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔نظر پتھر کو بھی توڑ دیتی نظر صرف اپنوں کی نہیں جنات کی بھی لگتی ہے ہمارے معاشرے میں نظر لگنا بہت آم ہےنظر اچھی بھی ہوتی ہے اور بُری بھی اچھی نظر اُس صورت میں ہم کہیں گے جب اس نظر کے بعد جس ہر نظر پڑی ہے اس کی تعریف و توصیف بھی ہو اور دل میں اس کی عزت و احترام بھی ہو۔ بُری نظر ہم اس کو کہیں گے جب ہم کسی کو ہنستا کھیلتا دیکھتے ہیں توایک جلن کی آگ سی سُلگتی ہے۔ نظر کے ساتھ حسد کا بھی تعلق ہے وہ نظر جس کو دیکھا گیا ہے اُس شخصیت پر بڑے بُرے اثرات ڈالتی ہے کبھی کبھی تو اتنا بُرا  اثر  ڈالتی ہے  کہ نظر اُس آدمی کی صحت خراب کر دیتی ہے اس کے معال و اسباب کو تباہ کر دیتی ہے۔

لڑکیاں تو ذرا ذرا سی بات پر کہتی ہیں کہ ہمیں نظر لگ گئی ان کی زبان پر نظر کا لفظ اس طرح رٹ سا گیا ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش ہو یا بیماری، یا ان کے کپڑے جل جائیں یا ناخن ٹوٹ جائیں وغیرہ تو وہ ان کو بھی نظر بد کا شکار سمجھتی ہیں حالانکہ کبھی کبھار یہ  انکی بے احتیاتی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے یہ ان کے دماغ میں وہم کی طرح بیٹھ گیا ہے۔


نظر بد سے بچاؤ کے لیے قرآن حکیم میں اور اسلامی کتابوں میں بہت سی دُعائیں اور کلمات ملتے ہیں جن کا استعمال اگر ہم اپنی  روز مرہ زندگی میں کریں تو نظر بد سے بچا جا سکتا ہے۔نظر حقیقت ہے خدارا نظر کو نظر کا مسئلہ نہ بناؤ۔

Referred back
Feature is always reporting based. This is essay or at the most article. U should put some real story and talk with the related people. Also seek expert opinion
In urdu we accept only inpage format, because in word format we can not edit it.


درشھوار   مرزا  
2k16/MMC/19
MA Previous 
فیچر :   نظر  وہم   یا  حقیقت
              نظر بد  وہم یا حقیقت  ایک ایسا موضوع ہے،جس کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نظر بد کی دراصل کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ محض وہم ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین  رکھتے ہیں۔
"نظر لگ گئی" ،"لگادی نہ نظر"، نظر، نظر، نظر، یہ وہ جملے ہیں جو ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر سُننے کو ملتے ہیں۔
نظر بد کے سب سے آسان شکار بچے ہوتے ہیں جن کی معصومانہ حرکتیں ، شرارتیں دل  کو ایسے لُبھاتی ہیں کہ انہیں بے اختیار ماں باپ اور چاہنے والوں کی نظر بھی لگ جاتی ہے۔
نظر ایک زہر ہےکہ حق تعالیٰ نے بعض لوگوں کی آنکھوں میں اس کو رکھا ہے جیسا کہ بچھوں کے  ڈنگ  اور سانپ کی زبان میں زہر رکھا گیا ہے اسی طرح آدمی کی آنکھ میں بھی نظر مقرر کی گئی ہے اور یہ نہ جانے کہ نظر غیر کی لگا کرتی ہےاپنی  نہیں لگتی بعض وقت اپنی ہی نظر لگا کرتی ہے اور یہ جانے کہ فقط انسانوں ہی پر لگتی ہے دوسری چیز پر نہیں لگتی  ہے،  بلکہ نظر کا شکار جانور، کھیتی، باغ، دولت اور اسباب، ہر وہ چیز جو خوبصورت اور فائدہ  ہو نظر کا شکار ہو جاتی ہے۔
نظر صرف انسان کی ہی نہیں لگتی بلکہ آسمانی اور نادیدہ مخلوق کی بھی لگتی ہے۔
نظر بد جسے زخمِ چشم یا نظر لگنا بھی کہا جاتا ہے ،اس کا تصور قدیم زمانے سے مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔   عرب میں ایسے لوگ موجود تھے جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔
 اور ان کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کرکے نظر لگاتے اور جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے، ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہو جاتی۔ نظر بد کا مسئلہ عقلی لحاظ سے ناممکن نہیں ہے ،کیونکہ آج کے دور میں یہ بات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ،اگر آنکھوں میں ایک خاص قسم کی مقناطیسی قوت پر مہارت حاصل کر لی جائے تو آدمی اس کے ذریعے سے دوسروں کے ذہن اور خیالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
عبداللہ ایک عالم ہیں کہتے ہیں کہ میں سفر میں تھا اور میرا اُونٹ بہت تیز اور چالاک تھا اتفاقاََ ایک جگہ ہر جو اُترا کسی نے مجھ سے کہا کہ اس جگہ ایک شخص نظر لگانے میں مشہور ہے اور تمھارا شُتر بہت خوب ہے ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں نظر لگادے اور تمہارا اُونٹ  ضائع ہو جائے میں نے کہا کہ میرے اُونٹ پر اس کی نظر نہیں لگے گی جب یہ خبر اس کو پہنچی تو اُس نے اُسی وقت میرے اُونٹ کو نگاہ بھر دیکھا اس کے دیکھتے ہی اُونٹ گِر پڑا اور مضطر ہونے لگا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ فلانہ شخص تمہارے اُونٹ کو نظر لگا گیا ہےمیں نے اس کو بُلوا کر اپنے رُو برو بِٹھایا  اور ایک دُعا پڑھی اور اُسی وقت آنکھ اُس شخص کی نکل پڑی اور اُومٹ میرا اچھا ہو گیا۔
 ہم میں سے اکثر لوگ ایسے افراد کو جانتے ہوں گے جو آنکھوں کی اس توانائی کے ذریعے انسانوں، جانوروں یا کسی بھی شے پر اثر انداز ہوتے ہیں، لہٰذا نظر بد کا انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی نظر بد کا وجود عقل و علم کے منافی ہے۔
 باقی رہی یہ بات کہ نظر کا لگنا اچھا لگنے یا خوب صورتی کی وجہ سے ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ نظر لگانے والے کی نظر میں اگر حسد یا دشمنی ہو تو تب بھی نظر لگتی ہے ۔
 بعض لوگ جن کی نظر لگتی ہے ان کا بیان ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے حرارت نکلتی ہے،نظر اس وقت لگتی ہے جب کسی کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اور اس میں حسد کا شائبہ ہو اور نظر لگانے والا گندی فطرت والا ہوتا ہے، جیسے زہریلے سانپ ہوتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر معشوق کو عاشق کی نظر لگ جاتی ، لہٰذا یہ نظر کا لگنا حسد ، بغض ، کینہ اور دشمنی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
مان لیا  جائے کے  نظر کا لگنا   حق  ہے تو  اسکا  علاج  کیا ہے او ر  اس سے کیسے بچا جائے۔  اصل میں نظر کو دور کرنے کے بہت سے طریقے مختلف علاقوں میں رائج ہیں ۔
نظر لگنے او راس سے بچنے کیلئے  عرب میں جو طریقہ رائج تھا اور  ہے کہ جس شخص کی نظر لگتی ہے اس کے ہاتھ، پاؤں، ٹخنے، کہنیاں وغیرہ دھلوا کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے  ہیں جس کو نظر لگی ہوتی  ہے  اور اس کو وہ لوگ شفاء کا ذریعہ سمجھتے  ہیں ۔  
مگر ہمارے پاس  نظر کے علاج  کے لیے   عجیب   وغریب طریقے  اپنائے جاتے  ہیں ۔ جیسے کہ بعض لوگ لو بان اور نیرہ ( خاص پودا) کے دھویں سے دھونی دیتے ہیں ، بعض لوگ پھٹکری سے نظر کا علاج کرتے ہیں۔
 کچھ لوگ لال والی سات عدد مرچیں لیتے ہیں اور اس پر چار قل پڑھتے ہیں اور جس کو نظر لگی ہوتی ہے اس کی جسم یا سر یا چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور پھر اسے آگ پر جلا دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں  نظر  کا سب سے زیادہ  کامیاب  مانے جانے والا علاج    کالا داگھا  اور چپل  ہیں،  اگر  کسی  انسان  کو  نظر  لگ جائے  تو کسی فقیر  سے  کالے  دھاگے  پر  دم  کرواکےاسکو گلے میں  پہنائی  جاتی ہے  یا  ہاتھ  پر باندھ   دیا جاتا  ہے  ۔اور اگر  کسی  جانورکو نظر  لگ جائے تو کبھی  کالا  داگھا  کبھی  چپل اسکے  گلے لٹکادیا جاتا  ہے۔ یہی  وجہ  ہے کے  ہر  ۳  سے ۲  افراد   میں   کالا دھاگا  پایا جاتا ہے  اور شہر میں   ہر ۱۰  سے  ۸ گاڑیوں  کے اور دیہاتوں میں  بھینس  بکریوں  کے  ساتھ  چپل  لٹکتا  ملتا  ہے۔
نظر بد کے اثرات پر یقین رکھنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم بلاوجہ شک و شبہات میں مبتلا ہو کر دوسروں کو ہر پریشانی کا مورد الزام قرار دے کر باہمی تعلقات کو خراب کریں۔ اور باہمی طور پر الزام در الزام یا لعن طعن کا سبب بنیں اور نہ ہی نظر بد کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں بے ہودہ کاموں ،طریقوں کی پناہ لینی چاہیے اور نہ ہی اس سلسلے میں پیروں اور جعل ساز تعویذ فروشوں کے جال میں پھنس کر اپنا مال و اسباب اور ذہنی سکون برباد کرنا چاہیے۔

لڑکیاں تو ذرا ذرا سی بات پر کہتی ہیں کہ ہمیں نظر لگ گئی ان کی زبان پر نظر کا لفظ اس طرح رٹ سا گیا ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش ہو یا بیماری، یا ان کے کپڑے جل جائیں یا ناخن ٹوٹ جائیں وغیرہ تو وہ ان کو بھی نظر بد کا شکار سمجھتی ہیں حالانکہ کبھی کبھار یہ  انکی بے احتیاتی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے یہ ان کے دماغ میں وہم کی طرح بیٹھ گیا ہے۔
نظر بد سے بچاؤ کے لیے قرآن حکیم میں اور اسلامی کتابوں میں بہت سی دُعائیں اور کلمات ملتے ہیں جن کا استعمال اگر ہم اپنی  روز مرہ زندگی میں کریں تو نظر بد سے بچا جا سکتا ہے۔نظر حقیقت ہے خدارا نظر کو نظر کا مسئلہ نہ بناؤ۔

No comments:

Post a Comment