Sunday 27 March 2016

پروفائل: نظیر حسین پٹھان

I do not know what u have changed, except few starting line, which  have been edited. 
ان کا سوسائٹی میں کیا کنٹری بیوشن ہے؟ نوکری کرنا کوئی کنٹری بیوشن نہیں مانا جاتا۔ نوکری سے بڑھ کر انہوں نے اگر کچھ کیا ہے تو اس کا بیان ہونا چاہئے۔ کوئی زندگی کا دلچسپ واقعہ، وغیرہ۔ یہ تو ان کی سی وی ہے۔ جس سے کسی کو دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اسکو پروفائل کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔
 برائے مہربانی لکھنے میں پیراگراف کریں۔ 

پروفائل:نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر 
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
یوں تو علمی اور ادبی لحاظ سے بہت سے لوگوں کے نامور کتاب لکھے ہوئے ہیں اور آج لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ایک ایسی ہی شخصیت ہمارے بیچ ہیں جن کا نام نظیر حسین پٹھان ہے ۔ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے۔ نظیر حسین پٹھان 1اگست 1947میں اپنے گاﺅں چھجڑا تعلقہ قمبر ضلع میں پیدا ہوئے ان کا یہ گاﺅں ان گاﺅں کی طرح نہیں سمجھا اور جانا جاتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہ ہو اور چارو ںطرف سے جہالت نافذ ہو ۔ نظیر حسین پٹھان کا گاﺅں اس سماج میں دوسرے گاﺅں کے لیے ایک رول ماڈل ہے کیونکہ اس گاﺅں نے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کو دیے ہین جن میں سے ایک نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا گاﺅں آج بھی جانا اور مانا جاتا ہے۔نظیر حسین پٹھان نے اسی گاﺅں کے اسکول سے پانچ درجے پاس کیےا۔ ان کے باپ دادا نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 

نظیر پرائمری پڑھنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے لئے میونسپل ھائی اسکول قمبر میں داخلہ لیا۔1963ع میں انھوں نے میٹرک کا امتحان حیدرآباد بورڈ سے پاس کیا ،میڑک پاس کرنے کا بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلہ لیا جہاں سے اس نے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں سے اور دیگر گھر کے میمبروں سے صلاح مشورہ کیا اور ان کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلہ لیا ۔1966ع میں انٹر سائنس کیا اسی ہی کالیج سے اور 1969ع میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد نظیر حسین نے سندھ یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ میں 1971ع میں داخلہ لیا۔

اس زمانے ان کے ایک دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھائی اسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جاب کی آفر کی جو انھوں نے قبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیا۔وہاں ا ن کو انور پیر زادو سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میں کراچی سے نکلنے والا رسالہ ”سوجھرو“اور ”برسات“میں شایع ہوئی۔ ان کی پہلی نظم کا عنوان تھا (گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امر جلیل نے دیا تھا۔
ان کو اپنی پسند کی جاب ملی 9فروری پہ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے حیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج، سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔

ریٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔
آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میںسے شادی کی۔

کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ اور ان کو ایک جگہ پہ بلا کر فائدہ مند باتوں سے اوئیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑوس کے بچوں کو آگے پڑھنے کے لیے ہر وقت نصیحت کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی بات بڑے آرام اور باریک بینی سے سنتے ہیں اور اسی طرح ان کی نصیحت کے اوپر کافی بچوں نے عمل کیا اور وہ آج بہت ساری پوسٹوں پر تائنات ہیں۔نظیر حسین پٹھان جیسے لوگ معاشرے میں امن کا دیپ جلاتے ہیں اور ان کو بھی ایسے کاموں کے لیے صدیوں تک ےاد رکھا جائے گا۔
 کا سوسائٹی میں کیا کنٹری بیوشن ہے؟ نوکری کرنا کوئی کنٹری بیوشن نہیں مانا جاتا۔ نوکری سے بڑھ کر انہوں نے اگر کچھ کیا ہے تو اس کا بیان ہونا چاہئے۔ کوئی زندگی کا دلچسپ واقعہ، وغیرہ۔ یہ تو ان کی سی وی ہے۔ جس سے کسی کو دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اسکو پروفائل کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔
 برائے مہربانی لکھنے میں پیراگراف کریں۔

پروفائل:نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر 
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
یوں تو علمی اور ادبی لحاظ سے بہت سے لوگوں کے نامور کتاب لکھے ہوئے ہیں اور آج لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ایک ایسی ہی شخصیت ہمارے بیچ ہیں جن کا نام نظیر حسین پٹھان ہے ۔ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے۔ نظیر حسین پٹھان 1اگست 1947میں اپنے گاﺅں چھجڑا تعلقہ قمبر ضلع میں پیدا ہوئے ان کا یہ گاﺅں ان گاﺅں کی طرح نہیں سمجھا اور جانا جاتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہ ہو اور چارو ںطرف سے جہالت نافذ ہو ۔ نظیر حسین پٹھان کا گاﺅں اس سماج میں دوسرے گاﺅں کے لیے ایک رول ماڈل ہے کیونکہ اس گاﺅں نے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کو دیے ہین جن میں سے ایک نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا گاﺅں آج بھی جانا اور مانا جاتا ہے۔نظیر حسین پٹھان نے اسی گاﺅں کے اسکول سے پانچ درجے پاس کیےا۔ ان کے باپ دادا نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 

نظیر پرائمری پڑھنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے لئے میونسپل ھائی اسکول قمبر میں داخلہ لیا۔1963ع میں انھوں نے میٹرک کا امتحان حیدرآباد بورڈ سے پاس کیا ،میڑک پاس کرنے کا بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلہ لیا جہاں سے اس نے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں سے اور دیگر گھر کے میمبروں سے صلاح مشورہ کیا اور ان کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلہ لیا ۔1966ع میں انٹر سائنس کیا اسی ہی کالیج سے اور 1969ع میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد نظیر حسین نے سندھ یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ میں 1971ع میں داخلہ لیا۔

اس زمانے ان کے ایک دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھائی اسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جاب کی آفر کی جو انھوں نے قبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیا۔وہاں ا ن کو انور پیر زادو سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میں کراچی سے نکلنے والا رسالہ ”سوجھرو“اور ”برسات“میں شایع ہوئی۔ ان کی پہلی نظم کا عنوان تھا (گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امر جلیل نے دیا تھا۔
ان کو اپنی پسند کی جاب ملی 9فروری پہ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے حیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج، سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔

ریٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔
آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میںسے شادی کی۔

کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ اور ان کو ایک جگہ پہ بلا کر فائدہ مند باتوں سے اوئیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑوس کے بچوں کو آگے پڑھنے کے لیے ہر وقت نصیحت کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی بات بڑے آرام اور باریک بینی سے سنتے ہیں اور اسی طرح ان کی نصیحت کے اوپر کافی بچوں نے عمل کیا اور وہ آج بہت ساری پوسٹوں پر تائنات ہیں۔نظیر حسین پٹھان جیسے لوگ معاشرے میں امن کا دیپ جلاتے ہیں اور ان کو بھی ایسے کاموں کے لیے صدیوں تک ےاد رکھا جائے گا۔


Referred back. This is Cv type. please read sample availabale on FB group and write as profile is written. Observe para. This can not be taken as profile.
پروفائل: نظیر حسین پٹھان
رحما تالپر
رول نمبر :50
ایم۔اے۔پریویس
سندھ نے ہمیں بہت نامور شخصیتیں دی ہیں جن میںبہت سی تعلیمی ماہر اور ادبی اور علمی سے لحاظ سے بہت مشھور ہیں جن میں نظیر حسین پٹھان بھی ایک ہیں۔ ان کا پورا نام نظیر حسین پٹھان ہے جو ان کے والد نے رکھا وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ وہ اسی نام سے مشھور ہوئے ان کے والد کا نام علی نواز پٹھان ہے ۔نظیر حسین پٹھان کا یوم پیدائیش 1 اگست 1947 جمعے کے دن۔ ان کے گاوئں کا نام چھجڑا تعلقہ قمبر ضلعہ لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ان کا گاوئں سندھ کا کوئی چھوٹا روایتی گاوئں نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں ترقی ےافتہ گاوئں تھا جس اسکول میںنظیر پٹھان صاحب نے پرائیمری تعلیم حاصل کی اسی اسکول سے ان کے باپ دادا نے ساتھ درجے سندھی یعنی فائنل پاس کیا ۔ان کے گھرانے میں تعلیمی شعور اور تعلیم سے محبت تمام قدیمی زمانے سے رہی ہے پرائیمری پاس کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کے لیے میونسپل ھاءاسکول قمبر میں داخل کیا گیا اس زمانے میں انگریزی پہلی کلاس کو standardکیا جاتا تھا ۔سیکنڈری تعلیم ساتویں کلاس انگریزی میٹرک کا امتحان مانا جاتا تھا جو سندھ یونیورسٹی لیتی تھی پھر اسی دوران بورڈ آف انٹرمیڈیئیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد قائم ہوا پھر نویں اور دسویں کے امتحان حیدرآباد بورڈ نے لینا شروع کیا 1963 میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا میٹرک پاس کرنے کے بعد ڈگری کالیج لاڑکانہ میں داخلا لیا جہاں سے فرسٹ ایئر پاس کرنے کے بعد دوستوں کے مشورے سے حیدرآباد میں داخلا لینے کا فیصلہ کیا گورمنٹ کالیج(کالی موری) میں داخلا لیا 1966میں انٹر سائنس کیا اسی کالیج سے1969 میںB.s.c پاس کیا ۔B.s.c پاس کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش میں داخلا لیا 1971 میں آپ نے ماسٹرس کیا اس زمانے ان کے ایک واقف کار دوست ادیب جو ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے وہ صبح کے ٹائم میں گلستان شاھ لطیف ھاءاسکول میں کام کرتے تھے انھوں نے ان کو انگریزی استاد کی جانب کی آفر کی جو انھوں نے مقبول کی اور جاب شروع کی اسکول والوں نے ہی رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ دیاوہاں ان کو انور پیرزادہ صاحب سے اتنی انسیت ہوگئی جس نے محبت کی صورت اختیار کی اسی محبت نے ان سے شاعری کروائی جو اس وقت میںکراچی سے نکلنے والا رسالہ(سوجھرو) اور (برسات) میں شایع ہوئی ان کی پہلی نظم کا عنواں تھا(گیت کا جنم) کہانی کے بادشاھ امیر جلیل صاحب نے دیا تھا1972 1973کی بات ہے اسی زمانے میںفیملی پلاننگ جس کو اس وقت بہبودآبادی پلاننگ کہا جاتا تھا ۔بہبود آبادی پلاننگ آفیس میں جاب ملی لیکن آپ اس جاب سے مطمعن نہ ہوئے اور دسری جاب کی کوشش کرتے رہے آخر کار ان کو اپنی پسند کی جاب ملی9 فیبروری پہ پہلی پوسٹنگ گورمنٹ چیلاسنگ سیتل داس کالیج شکارپور میں ہوئی جہاںپڑہانے میں اور رہنے میں بہت مزہ آیا وہاں ان کو اچھے کلیگ اور دوست ملے جیسا کہ ان کا زیادہ وقت حیدرآباد میں گزرا اسی وجہ سے انھوں نے ھیدرآباد ٹرانسفر کرانا چاہا ۔1979جنوری میں ان کا ٹرانسفر گورمنٹ کالیج سکرنڈ میں ہوا وہاں سے 1980جنوری میں گورمنٹ کالیج سچل سرمست آرٹس کالیج تلک چاڑھی حیدرآباد میں ہواجہاں اسسٹنٹ پروفیسر بعد میں اسوسیئٹ طور پر ترقی ملی ۔اکتوبر 2007میں رٹائرڈ ہوئے ۔رٹائرڈ ہونے سے پانچ سال پہلے کالیج کے پرنسپل بنے ان کا پرنسپل بننے کا تجربہ بہت تلخ رہا آپ کے کہنے کے مطابق آپ جو کرنا چاھ رہے تھے وہ کر نہ سکے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں۔آپ کی بیوی ایک پرائمری استاد ہیں آپ نے 1989دسمبر میں منگی خاندان میں شادی کی آپ کی تین بیٹیاں ہیںآم رٹائرڈ ہونے کے بعد مختلف کالجزمیں لیکچرراور پرنسپل رہے ہیں فارغ وقت میں سندھی اخبار میں کالم لکھتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار شاعری بھی کر ڈالتے ہیں کتابوں میں آتم کہانیاں نفصیات اور صوفی ازم پسند ہے شاھ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں میں سیدھے اور سچے لوگ پسند ہیں موجودہ وقت میںآپ ٹیچرس کالیج میں ٹیچر اور پرنسپل میں شام کو سامرہ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتے ہیں اس وقت مختلف سماجی تعلیمی اشوز سے وابستہ ہیں۔ سندھ ایجوکیشن اکیڈمی میں ریٹائر آفیسرس ایسوسئیشن کے اہم عہدوں اور میمبر کے طور پر کام کر رہے ہیں اپنے پڑوس میں فلاحی کاموں کے ادارے کے اہم رکن ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment