Thursday 3 March 2016

غریب بچوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹیں Muhammad Umair

There are composing mistakes. U composed ے instead of ی
U can see entire article is not readable on web. 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi


 
نام محمد عمیر 
رول نمبر 42
کلاس ماس کمیونیکیشن ، ایم اے پریویئس 

آرٹیکل 
 غریب بچوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹیں 

آج کے دور میں تعلیم ہرایک کی بنیادی ضرورت ہے ۔کسی بھی قسم کی ترقی کا دارو مدار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے غریب والدین اپنے بچوں کے لئے یہی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ، مگر پاکسان کا غریبدو وقت کی روٹی کیلئے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ۔ 
اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں سندھ مےں 53.2پنجاب مےں 36.6فیصد بلوچستان مےں 70.6فیصد اور خیبر بختونخواہ 50.1فیصد آباد ی غربت کا شکار ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ہزاروں روپے فیسیں اعلیٰ تعلیم اور کھانے پینے کی اخراجات ایک غریب کس طرح پوری کر سکتا ہے۔
 پاکستان مےں تعلیمی نظام کا ایک اہم مسئلہ زبان سے بھی متعلق ہے۔ ہم اردو کو قومی زبان کا درجہ دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو مادری زبان میں ہی اچھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ کہتا ہے کہ اچھی تعلیم صرف مادری زبان میں ہی دی جاسکتی ہے۔ مگر ہماراتعلیمی نظام انگریزی ہے ۔ اس کی وجہ سے بہت سے بچے کو پڑھنے لکھنے مےں مشکلات درپیش آتی ہے میٹرک کے بعد انٹر سے تعلیمی نظام شروع ہوجاتا ہے جس سے طلباءکو مزید مسائل درپیش آتے ہیں۔ کیونکہ پہلی کلاس جو سندھی یا اردو زبان مےں پڑھتے آ رہے ہیں ان کے لئے اچانک انگریزی زبان مےںنصاب پڑھنے کی ملے تو بہت سے طلباءکی دلچسپی پڑھائی سے ہٹ جاتی ہے۔
 اگر غریب کا بچہ کسی طرح یونیورسٹی کی تعلیم مےں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کو انصاف نہیں ملتا۔ دن رات محنت و لگن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے جب وہ کسی ملازمت کیل ¿ے جاتا ہے اس سے بھاری رقم کا سوال ہوتا ہے جو کہ وہ نہیں دے سکتا ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی روزگار نہ ملے تو کیا فائدہ ۔ 
 پرائیویٹ اسکولوں کی آسمان سے باتیں کرتی فیسیں ہیں جہاں غریب اپنے بچہ نہیں پڑھا سکتے ۔ انٹر کے بعد یونیورسٹی یاپیشہ ورانہ کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ ہے جہاں اور مہنگی فیس ہیں۔ یونیورسٹی وغیرہ کی ہزاروں روپے ایڈمیشن فیس ادا کرنا بہت مشکل ہے ۔ غریب بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے خواب صرف خواب ہی ب رہ جاتے ہیں ۔ پاکستان مےں تعلیم سستی تو ہے لیکن پر پاکستان مےں رہنے والوں کیلئے مہنگی ہے ۔ اور کسی کام کی نہیں۔ غربت کے مارے ماں باپ اپنے بچوں کو کوئی چھوٹا موٹا ہنر سیکھانے پر مجبور ہو رہے ہیں تاکہ کل یہ بچے کسی کے محتاج نہ ہوں۔
دنیا مےں ترقی یافتہ ممالک جن مےں معیاری اور یکسا ں تعلیمی نظام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی واضح نظر آتی ہے کہ جس ملک جوزبان ہے اسی زبان مےں پڑھایا جاتا ہے امریکہ ہو یا جاپان انڈیا ہو یا انگلینڈ کہیں بھی تعلیم ا ن کی اپنی زبان سے ہٹ کر نہیں دی جاتی سوائے پاکستان کے ۔ پاکستان مےں اعلیٰ تعلیم کا بجٹ جو کہ تعلیم مختص کیا جاتا ہے پاکستان مےں تعلیمی اخراجات مےں بھی اضا فہ ہوتا جا رہا ہے لیکن تعلیمی نظام میں مصبت تبدیلی نہیں آئی غریب اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں مےں تعلیم دلواتے ہیں ۔لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کی تعلیم کا معیار دن بہ دن گرتا جا رہا ہے اور نجی تعلیم اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسیں غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہےں۔ تعلیمی فنڈز کی بات کی جائے تو پاکستان مےں 2.4%فیصد GDPتعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ صرف 11%فیصد ترقیاتی اخراجات پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے کافی نہیں ۔ بد قسمتی سے دنیا مےں پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے جس کے 5کروڑ سے زائد بچے ابھی بھی اسکولوں سے باہرہےں ۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی نظام بہتربنانے کے لئے ایسابنیادی کام کرے ملک کا ہر بچہ علم کی دولت سے محروم نہ رہے ۔ 

Department of Media and Communication studies University of Sindh, Jamshoro 

 

No comments:

Post a Comment